مردم شماری منظوری کے بعد بلدیاتی حلقہ بندیاں ضروری ہو گئیں

0

کراچی/ اسلام آباد(رپورٹ:ارشاد کھوکھر/نمائندہ امت )مردم شماری نتائج کی منظوری کے نتیجے میں ملک بھر میں نئی بلدیاتی حلقہ بندیاں ضروری ہو گئی ہیں ۔ کراچی کے3اضلاع وسطی ،جنوبی اور کورنگی میں 28یونین کمیٹیاں کم ہوں گی۔شرقی،غربی و ملیر میں یوسیز کی تعداد بڑھ جائے گی ۔مردم شماری نتائج کی منظوری کے بعد ملک بھر میں 2019میں بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔صوبائی حکومت سندھ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم نہ کیں تو بعض قصبے ٹاؤن و میونسپل کمیٹیوں میں بدل جائیں گے ۔ 2015میں بلدیاتی انتخابات کے لئے حلقہ بندیاں1998کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی تھیں جو اب 2017کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گی ۔اس کے نتیجے میں کراچی سمیت کئی اضلاع کے حلقوں میں رد و بدل ہوگا ۔1998کی مردم شماری کے مقابلے میں2017میں کی گئی مردم شماری سے بعض اضلاع ، تحصیلوں اور قصبوں کی آبادی کی شرح میں اضافے اور کمی کا انکشاف ہوا ہے ۔ 1998کے مقابلے میں ملک بھر کے تمام اضلاع و علاقوں میں آبادی بڑھی ہے تاہم کہیں تناسب زیادہ اور کسی جگہ کمی ۔کراچی کے3اضلاع جنوبی،وسطی،کورنگی کی آبادی کی شرح میں کمی جبکہ ضلع غربی ، شرقی اور ملیر کی آبادی میں اضافہ ہوا ۔ حکومت سندھ کے نافذ بلدیاتی قانون کے مطابق میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیس کارپوریشن اور میٹروپولیٹن والے شہروں میں 40سے50ہزار نفوس پر مشتمل یونین کمیٹی بنائی جائے گی ۔20برس قبل ہونے والی مردم شماری کی بنیا د پر کراچی کے تمام 6اضلاع میں 209یونین کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ یونین کمیٹیوں کی تعداد بڑھانے یا نہ بڑھانے کا فیصلہ سندھ حکومت کرے گی۔ اگر یونین کمیٹیوں کی تعداد میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو صوبائی حکومت کو قانون میں فی یونین کمیٹی آبادی کی شرح سے متعلق شق میں ترمیم کرنی ہوگی ۔1998کی مردم شماری میں کراچی کی آباد ی98لاکھ 56ہزار 318تھی جن میں تقریباً ساڑھے3 فیصد دیہی آبادی بھی شامل تھی۔2017کی مردم شماری نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ51ہزار 521 ہے اور اس میں سے دیہی آبادی تقریباً 7فیصد ہے۔مردم شماری نتائج کے مطابق تمام اضلاع کی آبادی کی شرح مدنظر رکھی جائے تو ضلع جنوبی میں یونین کمیٹیوں کی تعداد 37سے کم ہوکر 20ہوجائیں گی۔ضلعی وسطی کی یونین کمیٹیوں کی تعداد 51 سے کم ہوکر 42 رہ جائیں گی ۔ضلع کورنگی میں2 یونین کمیٹیاں کم ہوکر ان کی تعداد 35 رہ جائے گی ۔ضلع غربی،شرقی اور ملیر کی یونین کمیٹیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا ۔ 1998 کے مقابلے میں 2017 کی آبادی میں سب سے زیادہ 105 فیصد اضافہ ضلع ملیر میں ہوا اور اس کی آبادی 9لاکھ 76 ہزار سے بڑھ کر 20لاکھ 8ہزار ہوگئی۔ضلع غربی کی آبادی تقریباً 87 فیصد اضافے سے 20لاکھ 89ہزار سے بڑھ کر39 لاکھ 14ہزار تک جا پہنچی ۔ ضلع شرقی کی آبادی 22لاکھ سے بڑھ کر 29لاکھ ہو گئی ہے ۔ضلع غربی و ضلع ملیر میں بعض علاقوں کا شمار دیہی علاقوں میں ہوتا ہے جن کی 38 یونین کونسلوں پر مشتمل کراچی ضلع کونسل قائم ہے۔ قانون کے مطابق 10سے15ہزار تک کی دیہی آبادی پر ایک یونین کونسل ہوگی۔قوانین میں ترمیم نہ ہونے پر کراچی ضلع کونسل میں یونین کونسلوں کی تعداد 38ہزار سے بڑھ کر 100تک ہوسکتی ہے۔بلدیاتی ایکٹ کے مطابق 50ہزار سے زیادہ آبادی والے شہروں کیلئے ٹاؤن کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اوران کا شمار بھی شہری آبادی میں ہوتا ہے۔اس وقت سندھ میں تقریباً 147 ٹاؤن کمیٹیاں اور 36میونسپل کمیٹیاں ہیں۔ذرائع کا کہناہے کہ اس حوالے سے بلدیاتی ایکٹ میں ترا میم نہ ہوئیں تو بعض ٹاؤن کمیٹیاں بھی میونسپل کمیٹیز میں تبدیل ہو سکتی ہیں ۔بعض ایسے قصبے جو ضلع کونسلوں کی حدودمیں شامل ہیں وہاں ٹاؤن کمیٹیاں بن جائیں گی ۔

اسلام آباد(نمائندہ امت/مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دیدی ہے ۔کونسل نے آبادی میں تیزی سے اضافے کے مسئلہ سے مؤثر انداز میں نبرد آزما ہونے کیلئے قومی اور صوبائی ٹاسک فورسز قائم کر دی ہیں ، جن کی سربراہی قومی سطح پر وزیر اعظم اور صوبوں میں متعلقہ وزرائے اعلیٰ کریں گے ۔قابل تجدید توانائی کے استعمال و ملک میں کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کا عمل مزید بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دینے پر بھی اتفاق پایا گیا ہے ۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاقی وزرا ڈاکٹر فہمیدہ مرزا،اسد عمر،محمد فروغ نسیم،محمد میاں سومرو، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ ،وزیر اعلیٰ خیبرپختون محمود خان، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال، وزیراعظم کے مشیرِ تجارت و صنعت عبدالرزاق داؤد اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں محکمہ شماریات نے2017 کی مردم و خانہ شماری نتائج پر سمری پیش کی۔ اس دوران سندھ،فاٹا و مختلف علاقوں کے 5 فی صدبلاکس کی دوبارہ مردم شماری بھی زیر غور آئی۔ اجلاس میں صوبوں کو وسائل کی تقسیم موجودہ مردم شماری نتائج کی بنیاد پرہی کرنا ہوگا ۔ آبادی میں 2.4 فیصد سالانہ کے حساب سے تیز تر اضافے پر غور کیا گیا ۔کونسل نے48 گھنٹوں کے دوران قومی سطح پر وزیراعظم و صوبائی سطح پر وزرائے اعلیٰ کی سربراہی میں قومی اور صوبائی ٹاسک فورسز بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹاسک فورسز سپریم کورٹ کے احکام پر بننے والی ٹاسک فورس کی سفارشات پر غور کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو جامع لائحہ عمل پیش کریں گی۔ مشترکہ مفادات کونسل نے ایک ہزار 230 میگاواٹ کے حویلی بہادر شاہ اور ایک ہزار 223 میگاواٹ کے بلوکی آر ایل این جی پاور پلانٹس کی فوری نجکاری کی منظوری دے دی۔مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے جاری اعلامیے کے مطابق آبادی میں تیز تر اضافے سے نمٹنے کیلئے بنائی ٹاسک فورسز تمام طبقات سے مشاورت کریں گی۔مستقبل کی حکمت عملی پر جامع ایکشن پلان بنائیں گی۔اسی اجلاس میں خیبر پختون کو بجلی منافع کے بقایا جات رواں سال میں ادائیگی کی منظوری دے ی ہے ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےوزیر اعظم نے کہا کہ آبی وسائل کی تقسیم کیلئے ٹیلی میٹری سسٹم کی انسٹالیشن بہت ضروری ہے۔اجلاس میں وفاق و صوبوں کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم کا جائزہ لیا گیا۔قدرتی گیس کی تقسیم و مینجمنٹ کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں سندھ نے پانی کی تقسیم 1992 کے فارمولے کے پیرا2کےمطابق کرنے کا مطالبہ کیا۔اجلاس میں خیبرپختون کو50 لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے جگہ کی دستیابی پر بات چیت و فاٹا کو صوبوں کے حصے سے 3فیصد وسائل کی فراہمی پر مشاورت کی گئی۔اس سے قبل وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی اجلاس میں کابینہ کی نجکاری کمیٹی نے حویلی بہادر شاہ اور بلوکی پلانٹس کے علاوہ ایس ایم ای بینک لمیٹڈ،فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ، جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد،لاکھڑا کول مائنز (لاکھڑا کول ڈیولپمنٹ کمپنی) اور سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور کی نجکاری کی منظوری دی گئی ۔اجلاس میں ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی بحث کی گئی جو اس وقت 20 کروڑ 78 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور سالانہ 2 اعشاریہ 4 فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More