کک باکسنگ سینکڑوں تھائی بچوں کو ہلاک و معذور کرچکی

0

سدھارتھ شری واستو
تھائی لینڈ میں کک باکسنگ ’’موائے تھائی‘‘ مقابلوں میں ایک اور بچے کی ہلاکت نے معاشرے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں اور لاکھوں شہریوں نے بچوں کی کک باکسنگ کے مقابلوں پر پابندی کا مطالبہ کردیا ہے۔ جبکہ ہلاک ہونے والے بچے انوچا تاساکا کی یاد میں ہزاروں مقامات پر تقاریب بھی منعقد کی گئی ہیں جن میں لاکھوں افراد نے شمعیں روشن کیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تھائی معاشرے میں کک باکسنگ کا مقبول کھیل سینکڑوں ننھے فائٹرز کی اموات اور معذوری کا سبب ہے۔ دوسری جانب یہ کھیل تھائی لینڈ کے غریب اور مفلوک الحال خاندانوں کی معاشی ضروریات پورا کرنے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ بنکاک کے معروف راماتھی بوڑی اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وتایا سنگرات نے بتایا ہے کہ کک باکسنگ کے مقابلوں میں شریک تمام بچوں کی دماغی اور جسمانی نشوونما میں شدید مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین اس بارے میں متفق ہیں کہ بچوں کو کک باکسنگ سے دور رکھا جائے۔ ’’موائے تھائی‘‘ سے بچوں کیلئے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں اور وہ جسمانی بڑھوتری اور تعلیم سے دور ہوجاتے ہیں۔ بنکاک میں صحافی لوگائی پھوٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سال کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ 2008ء سے تاحال تھائی بچوں کی کک باکسنگ میں ہلاکت اور مستقل طور پر معذوری کی رجسٹرڈ تعداد 345 سے زائد ہے جو مخالف باکسرز کی شدید ضربوں سے اندرونی چوٹوں سے اور دماغی صدمے کے سبب ہلاک ہوئے ہیں۔ بنکاک پوسٹ نے بتایا ہے کہ 10 نومبر کو باکسنگ رنگ میں 13 سالہ ننھے کک باکسر انوچا تاساکا کی ہلاکت کی تحقیقاتی رپورٹ میں حکومتی اور حزب اختلاف کے پارلیمانی اراکین نے تحریری یادداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ تھائی لینڈ میں صرف بالغان کی ’’موائے تھائی‘‘ کی اجازت دی جانی چاہئے۔ لیکن تھائی حکومتی اراکین پارلیمنٹ سمیت متعدد تنظیموں نے بچوں کی کک باکسنگ پر پابندی کی شدید مخالفت کردی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ آپ کسی قوم کی ثقافت پر کیسے پابندی کی تلوار چلا سکتے ہیں؟ آپ اس سلسلے میں یہ کرسکتے ہیں کہ اس گیم میں عمر کی حد مقرر کردی جائے، جس کی کم از کم عمر 12 برس مقرر کی جانی چاہئے۔ کیونکہ اس وقت تھائی رنگز میں کم سے کم عمر والے باکسرز کی حد 8 برس ہے۔ جبکہ 12 سال کی عمر تک باکسر میں کھیل کی سختیوں اور مخالف کی ضربوں اور ککس کو برداشت کرنے صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تھائی سیاسی رہنما ساکچائی للت نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم تھائی کلچر کی نشانی کہلائی جانے والی کک باکسنگ پر پابندی کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور بتا دینا چاہتے ہیں کہ تھائی لینڈ کے لاکھوں غریب خاندانوں کیلئے ’’موائے تھائی‘‘ ایک اہم معاشی سہولت ہے اور لاکھوں خاندانوں کی کفالت اس کھیل سے ہوتی ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے آنے والے سیاحوں سے ہماری حکومت کو زر مبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ہم ایسے مقبول کھیل پر پابندی برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر اس سلسلے میں بچوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے تو بچوں کی موت کی صورت میں یا ان کو جسمانی نقصان اور معذوری کا شکار ہونے کی صورت میں ان کیلئے مناسب ہرجانہ اور رقوم کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔ جو ایک لاکھ ڈالر تک ہونا چاہئے۔ تاکہ تھائی ثقافت کو محفوظ کیا جائے اور بچوں کا معاشی تحفظ بھی کیا جاسکے۔ دوسری جانب اس کھیل میں بچوں کی شرکت کے مخالفین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ اس وحشیانہ کھیل میں فریقین کو جو شدید چوٹیں اور زخم آتے ہیں، اس کے درد ناک نتائج اعضا شکنی اور بالآخر موت کے منہ میں چلے جانے کی شکل میں بھی نکل سکتے ہیں۔ جیسا کہ 10 نومبر کو تھائی رنگ میں 13 سالہ کک باکسر انوچاتاساکا، کو اس کے مد مقابل حریف نے اس قدر شدید ضربیں لگائیں کہ اس کے جسم میں اندرونی طور پر شدید زخم آئے اور اس کی ناک کان سے خون جاری ہوگیا اور وہ بے سدھ ہوکر رنگ میں گر گیا۔ ریفری نے اس موقع پر گیم کو ختم کیا، لیکن انوچاتا ساکا کی جان چلی گئی۔ انسانی حقوق کے مقامی رہنمائوں کا استدلال ہے کہ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ایک بچے کو مرنے کیلئے باکسنگ رنگ میں اتار دیا گیا۔ بنکاک پوسٹ نے لکھا ہے کہ انوچا ’’موائے تھائی‘‘ میں پانچ برس قبل محض آٹھ برس کی عمر میں شامل ہوا تھا۔ اس نے اپنے پانچ سالہ مختصر کیریئر میں 174 کک باکسنگ لڑائیاں لڑی تھیں اور 130 مقابلوں میں فتح مند ہوا تھا۔ لیکن دس نومبر کو ہونے والا مقابلہ انوچاتا ساکا کی آخری فائٹ ثابت ہوئی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More