عمران خان
جعلی اور مضر صحت ادویات کی فروخت میں ملوث مافیا نے شہر کے مضافاتی علاقوں میں پنجے گاڑ لئے ہیں، جہاں مذموم دھندے میں ملوث ادویات ساز کمپنیاں، ریٹیلر اور ڈیلرز اپنی ناقص مصنوعات میڈیکل اسٹوروں کے ذریعے شہریوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ لانڈھی، کورنگی، ملیر اور بن قاسم سمیت شہر کے دیگر مضافاتی علاقوں میں 13 کمپنیاں اور 70 سے زائد ڈیلر، ریٹیلر اور سپلائر مضر صحت اور جعلی ادویات کے دھندے میں ملوث ہیں۔ اربوں روپے کے اس مکروہ کاروبار میں ملوث مافیا اس قدر مضبوط اور بااثر ہے کہ جعلی ادویات کیخلاف کارروائی کرنے والے افسران کو پہلے خریدنے کی کوشش کرتی ہے، اس حربے میں ناکامی پر انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور نہ ماننے پر ان کے تبادلے کرا دیئے جاتے ہیں یا ان کیخلاف محکمہ جاتی انکوائریاں شروع کرادی جاتی ہیں۔
ضلع ملیر، بن قاسم، لانڈھی، کورنگی اور گلشن حدید سمیت شہر کے دیگر مضافاتی علاقوں میں جعلی، ناقص اور مضر صحت ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث جن کمپنیوں کی نشاندہی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران نے اپنی رپورٹوں میں کی ہے، ان میں ’’لرک نیوٹرو فارما، الفتح کمپنی، بائیو نووا فارما کمپنی، بائیو ہرب نیوٹروسوٹیکل کمپنی، عمر میڈیکل، ہیلتھ سپلیمنٹ کمپنی، رومن فارما کمپنی، پرنس میڈیکل لانڈھی، نازنین مختار میڈیکل بھینس کالونی اور رضیہ میڈیکل بھینس کالونی شامل ہیں ۔ ذرائع کے مطابق جعلی اور مضر صحت ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث مافیا نے اپنا دھندا اندرون شہر اور پوش علاقوں کے بجائے شہر کے مضافاتی اور دور دراز علاقوں میں پھیلا رکھا ہے۔ لاکھوں نفوس پر مشتمل بڑی آبادیوں میں قائم ہزاروں میڈیکل اسٹورز پر روزانہ کروڑوں روپے کی ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔ شہر کے اندرونی اور پوش علاقوں کے شہری ادویات سے متعلق زیادہ معلومات رکھنے کی وجہ سے ادویات دیکھ پرکھ کر خریدتے ہیں اور ایک ہی فارمولے پر بنائی گئی مختلف کمپنیوں کے ادویات خریدنے کے بجائے اسی مستند کمپنی کی دوا خریدتے ہیں جو ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔ تاہم مضافاتی علاقوں میں قائم میڈیکل اسٹورز کے مالکان ناخواندہ اور سادہ لوح شہریوں کو کہتے ہیں کہ دوا کا فارمولہ ایک ہی ہو تا ہے، بس کمپنیاں مختلف ہوتی ہیں، اس لئے کسی بھی کمپنی کی دوا خریدلیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح انہیں مستند کمپنیوں کے بجائے مقامی اور غیر رجسٹرڈ، غیر قانونی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات تھما دی جاتی ہیں۔ یہ ادویات میڈیکل اسٹورز کے مالکان کو مستند کمپنیوں کی ادویات کے مقابلے میں 70 سے 80 فیصد کم نرخ پر ملتی ہیں۔ تاہم ان ادویات کو بھی 100 فیصد دام میں فروخت کرکے یومیہ کروڑوں روپے کا ناجائز منافع یہ مافیا بٹور رہی ہے۔ جس میں سے میڈیکل اسٹوروں، کمپنیوں اور ڈیلرز کو برابر کا حصہ ملتا ہے۔ شہر کے مضافاتی علاقوں کے میڈیکل اسٹوروں پر جان بچانے والی اینٹی بائیوٹک میڈیسن سے لے کر معمولی سر درد، بخار اور نزلہ زکام کی ادویات سمیت ہر اس دوا کی نقل سپلائی کی جا رہی ہے جو کہ معروف ہیں اور عمومی طور پر شہر کے ڈاکٹر یہی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق محکمہ کی جانب سے شہر کے تمام علاقوں میں کئے گئے ایک ریسرچ سرو ے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مضافاتی علاقوں میں زیادہ تر میڈیکل اسٹورز کے ساتھ کلینک بھی موجود ہوتے ہیں، جہاں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز مریضوں کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھا کر انہیں وہی ادویات تجویز کرتے ہیں جو ان کے برابر والے اسٹور پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اس طرح ادویات سپلائی کرنے والی کمپنیوں کی ملی بھگت سے جعلی اور ناقص ادویات زیادہ سے زیادہ فروخت کرکے میڈیکل اسٹور کے مالکان اور ڈاکٹرز ماہانہ لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔ذرائع کے مطابق اس مافیا کے سامنے صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے حکام اور محکمہ ہیلتھ مکمل طور پر بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ تمام صورتحال علم میں ہونے کے باجود بڑے پیمانے پر کارروائی سے گریز کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس دھندے سے ڈرگ ڈپارٹمنٹ سے منسلک مختلف عناصر متعلقہ حکام اور افسران کے نام پر بھاری بھتہ ہفتہ کی بنیاد پر وصول کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کارکردگی دکھانے کیلئے شہر کے مرکزی علاقوں میں اکا دکا میڈیکل اسٹوروں پر چھاپے مارتے ہیں اور اس کی تشہیر کیلئے کسی ٹی وی چینل کی ٹیم کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس کے دوران میڈیکل اسٹور سے جعلی اور غیر قانونی ادویات اٹھا کر ضبط کرلی جاتی ہیں۔ تاہم ان کارروائیوں کا دائرہ نہ تو مضافاتی علاقوں تک پھیلایا جاتا ہے نہ ہی میڈیکل اسٹور سے اٹھائی گئی ادویات سپلائی کرنے والی کمپنیوں تک تحقیقات کا دائرہ وسیع کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ بلکہ رسمی کارروائیوں کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ جعلی ادویات مافیا کیخلاف بہت سرگرم ہے ۔
تاہم جب اصل صورتحال جاننے کیلئے ڈرگ ڈپارٹمنٹ کی کارکردگی کو کھنگالا گیا تو اکا دکا میڈیکل اسٹوروں پر کی گئی کارروائیوں کے علاوہ ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں اور سپلائی کرنے والے ڈیلرز کے خلاف کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹرز کو کارروائی کی اجازت دینے والا محکمہ صحت سندھ کا کوالٹی کنٹرول بورڈ بھی زیادہ فعال نہیں ہے۔ اس بورڈ کے سیکرٹری اور دیگر افسران ایک ساتھ جمع ہوکر بورڈ کا اجلاس کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔ اگر بورڈ کا اجلاس منعقد بھی کیا جا تا ہے تو اس میں ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹرز کی جانب سے جعلی، غیر رجسٹرڈ، غیر قانونی اور ناقص ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں اور، سپلائی و فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف جمع کرائی گئی درجنوں رپورٹوں پر کارروائی کی اجازت دینے کے بجائے معاملات کو اگلے اجلاس تک موخر کردیا جاتا ہے۔ صرف کارکردگی دکھانے کیلئے دو یا تین کیسز پر پیشرفت کی منظوری دی جاتی ہے۔ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ذرائع سے موصول ہونے والی ایک رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن افسران نے جعلی اور غیر قانونی ادویات کے دھندے میں ملوث مافیا کے خلاف کارروائی کی، انہیں انتقامی کارروائیوں کو نشانہ بنانے کیلئے پہلے ان کے تبادلے کرائے گئے اور پھر انہیں ادارے کے افسران کی جانب سے شوکاز نوٹس دلوائے گئے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی انکوائریاں شروع کرا دی گئیں۔ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ حالیہ عرصے میں شہر کے مضافاتی علاقوں سے ضبط کی گئی جعلی اور ناقص ادویات کے نمونوں کی تحقیقات کے سلسلے میں 70 کمپنیوں اور میڈیکل اسٹورز کے مالکان کو نوٹس ارسال کئے گئے ہیں، جن میں ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں اور ادویات سپلائی کرنے والے ڈیلر بھی شامل ہیں۔ تاہم اس کے باجود اس مافیا سے وابستہ افراد کو کوئی ڈر خوف نہیں ہے اور وہ اپنا مذموم دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭