امت رپورٹ
بھارت مشرقی پنجاب میں تیزی سے دوبارہ ابھرتی علیحدگی کی تحریک خالصتان سے پریشان ہے۔کرتارپور کی سرحد کھولنے سے متعلق وزیر اعظم مودی کا فیصلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
یاد رہے کہ چند ماہ پہلے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری کے موقع پر سابق بھارتی کرکٹر اور ریاست پنجاب کے وزیر بلدیات نوجوت سنگھ سدھو سے ملاقات کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ وہ گرونانک صاحب کے یوم پیدائش کے موقع پر بھارتی سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور سرحد کھولنے کی بات کریں گے۔ بعدازاں حکومت پاکستان کی جانب سے بھارتی حکومت کو باقاعدہ طور پر کرتارپور سرحد کھولنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ آرمی چیف سے بغل گیر ہونے پر سدھو کو بھارت میں شدید تنقید کا سامنا تھا۔ جبکہ پاکستانی پیشکش پر بھارت مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔ تاہم اب بھارتی حکومت نے کرتارپور سرحد کھولنے سے متعلق پاکستانی پیشکش قبول کر لی ہے۔ جبکہ بھارتی کابینہ نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔
جالندھر میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کرتارپور سرحد کھولنے سے متعلق پاکستانی پیشکش پر بھارتی حکومت کی ٹال مٹول کے سبب مشرقی پنجاب میں سخت غم و غصہ پھیل رہا تھا۔ بھارتی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے دہلی میں مرکزی حکومت کو رپورٹ دی تھی کہ کرتارپور سرحد کے معاملے پر حکومت کی عدم دلچسپی کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سے ریاست میں دوبارہ تیزی سے ابھرتی ہوئی خالصتان تحریک کے مضبوط ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ سکھوں کے لیے یہ ایک مذہبی معاملہ ہے، لہٰذا عام سکھ بھی اس ایشو پر حکومت سے ناراض ہے۔ بالخصوص ریاست کے نوجوان اس معاملے پر ناراض ہو کر خالصتان تحریک کا رخ کر سکتے ہیں، جو پہلے ہی مرکزی حکومت کی پالیسیوں پر بے چینی کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق معاملے کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے بالآخر دہلی حکومت نے کرتارپور بارڈر کھولنے سے متعلق پاکستانی پیشکش قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل ہونے والے ایک طویل حکومتی اجلاس میں وفاقی کابینہ کو اعتماد میں لے لیا گیا تھا۔ کابینہ کے بیشتر ارکان کا یہ خیال بھی تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب جنرل الیکشن سر پر ہیں تو سکھوں کی ناراضی مول لینا حکمران پارٹی بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ بالخصوص پنجاب میں بی جے پی کی اتحادی پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
برطانیہ میں مقیم خالصتان تحریک چلانے والے رنجیت سنگھ نے بھی توثیق کی ہے کہ سکھوں کے سخت ردعمل کے خوف سے مودی سرکار نے کرتارپور بارڈر کھولنے کی پیشکش قبول کی۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کونسل آف خالصتان کے جنرل سیکریٹری رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’مودی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اس پیشکش کو مسترد کر دیں۔ کیونکہ اس معاملے پر عام سکھ بھی بہت غصے میں تھا۔ خاص طور پر سکھوں کا مذہبی طبقہ اس وقت مقبوضہ پنجاب میں بہت زیادہ متحرک ہے۔ اگر مودی یہ فیصلہ نہ کرتے تو یہ آگ پوری ریاست میں پھیل جانی تھی‘‘۔ رنجیت سنگھ کے بقول کرتارپور بارڈر کھولنا خوش آئند ہے۔ تاہم کونسل آف خالصتان تو مقبوضہ پنجاب کی آزادی چاہتی ہے، لہٰذا اصل خوشی اس وقت ہی ہو گی جب ان کی ریاست، قابض دہلی حکومت سے آزاد ہو جائے۔ رنجیت سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کرتارپور بارڈر کھولنے کے حوالے سے پاکستان کو باقاعدہ سرکاری طور پر پیشکش کرنی چاہئے تھی۔ کیونکہ اب بھارت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ جیسے یہ پیشکش اس کی طرف سے کی گئی ہے اور پاکستان کو اس پر عمل کرنا چاہئے۔ پاکستان اور سکھوں کے گہرے تعلقات ہیں۔ لہٰذا جس طرح بھارت نے سرکاری طور پر کرتارپور سرحد کھولنے کا اعلان کر کے اپنی کابینہ سے اس کی منظوری دلائی ہے۔ یہی عمل پاکستان پہلے کر لیتا تو زیادہ شاندار بات ہوتی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ آفر مودی نے کی اور قبول پاکستان نے کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہی کرتارپور کوریڈور کھولنا چاہتا تھا۔ بھارت نے تو مجبوری میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ رنجیت سنگھ نے کہا کہ آج (جمعہ) گرونانک کا جنم دن ہے۔ ان کی وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ اس موقع پر کرتارپور کوریڈور کھولنے کے حوالے سے سکھوں کے نام پر ایک بیان جاری کریں تو بڑی بات ہو جائے گی۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ ہندو بنیا بغیر کسی فائدہ کے کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب وہ پاکستان کے خلاف دشمنی کی آخری حدیں عبور کر رہا ہے، کرتارپور بارڈر کھولنے سے متعلق اس کا اعلان شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ لہٰذا پاکستانی تجویز قبول کرنے پر خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ کوریڈور کھلنے سے بھارت کو subversion (بغاوت) کا ایک اور راستہ مل گیا ہے۔ کوورٹ وار کے ذریعے فاٹا، خیبر پختون، بلوچستان اور کراچی میں بھارت پہلے ہی دہشت گردی کرا رہا ہے۔ پنجاب اس بھارتی دہشت گردی سے کچھ محفوظ تھا، لیکن کرتارپور سرحد کھل جانے کے بعد وہ پنجاب میں بھی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے خفیہ کارروائیاں کرا سکتا ہے۔ آصف ہارون راجہ کا مزید کہنا تھا ’’2004ء میں جب مشرف نے بھارت سے امن ڈیل کی تھی تو اس وقت بھی ہم نے خوشی کے شادیانے بجائے تھے، لیکن یہ ایک اسٹرٹیجک دھوکہ تھا، جس میں امریکہ شامل تھا۔ 2004ء میں بھی آج کی طرح بھارت کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی عروج پر تھی۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی پورے جوبن پر تھی۔ بھارتی فوج کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ کوئی بھرتی کے لیے تیار نہیں تھا۔ حتیٰ کہ بھارتی آرمی چیف کو فوج میں بھرتیاں کرانے کے لیے مختلف مراعات اور ترغیبات کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ تاہم جب امن ڈیل کے تحت دوستی کی بات چلی تو نہ صرف کشمیری تحریک متاثر ہوئی، بلکہ بھارت سے ناچنے گانے والوں اور صحافتی و سفارتی وفود کا تانتا بندھ گیا۔ امریکہ کی مدد سے بیشتر الیکٹرونک میڈیا ہائوسز کو خرید لیا گیا۔ یوں ہمارا روایتی دشمن بظاہر ایک دم دوست بن گیا تھا، لیکن اس نے دوسری جانب مغربی سرحد کو دہشت گردی کے لیے فعال کر دیا۔ ہم اس لیے خاموش بیٹھے رہے کہ اب تو بھارت ہمارا دوست ہے۔ دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دینے پر کہیں یہ تعلقات خراب نہ ہو جائیں۔ قصہ مختصر مشرف کے دور میں امن ڈیل بھارت کی ایک شاطرانہ چال تھی۔ لہٰذا کرتارپور سرحد کے معاملے پر خوش ہو کر مزید آگے بڑھنے سے پہلے اس پر بھی نظر رکھنی ہو گی کہ ہندو بنیا دوبارہ اسٹرٹیجک دھوکہ دینے کا منصوبہ تو بنائے نہیں بیٹھا۔ کیونکہ اس وقت بھی وہ مقبوضہ کشمیر میں عروج پر پہنچی تحریک اور اس ایشو پر دنیا بھر میں ہونے والی بدنامی سے پریشان ہے۔ جبکہ اسے خالصتان تحریک کے زندہ ہونے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ اگر بھارت واقعی پاکستان سے تعلقات اچھے بنانا چاہتا ہے تو کرتارپور سرحد کھولنے کے فیصلے جیسا اقدام کنٹرول لائن پر کیوں نہیں کرتا۔ جہاں اس نے آہنی باڑ لگا رکھی ہے اور اس میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ جبکہ بلا اشتعال گولہ باری کا سلسلہ کنٹرول لائن کے علاوہ ورکنگ بائونڈری پر بھی جاری ہے‘‘۔
آصف ہارون کے بقول پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ 2014ء کی طرح آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ کرتارپور بارڈر کھلنے سے سکھوں کی آمدورفت بڑھ جائے گی اور ان کے پاکستان سے رابطوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ لہٰذا پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ پنجاب میں دوبارہ گرم ہونے والی خالصتان تحریک کا ایڈوانٹیج اٹھائے۔ دنیا بھر میں اس وقت لاکھوں سکھ علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں اور ان کی درخواست ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی طرح ان کی سیاسی اور سفارتی حمایت کر دے تو یہ بھی ان کی تحریک میں جان ڈالنے کے لیے بہت ہو گا۔ اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭