ٹیکس دہندگان پر جرمانے ڈال کر 20ارب جمع کرنے کا منصوبہ
اسلام آباد (محمد فیضان)فیڈرل بورڈآف ریونیو نے ایک مرتبہ پھرٹیکس دہندگان پرجرمانوں کا بو جھ ڈا ل کر 20 ارب سے زائد رقم ا کٹھی کرنےکےمنصوبےاور حکمت عملی پر کام شروع کردیاہےاورتا خیر سے گوشوارے داخل کرانے والے دس لا کھ با ئیس ہزار ٹیکس دہندگان کو آڈٹ نو ٹسز جاری کر دئیے ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف بی آر کے پا س سالا نہ دس لا کھ تو کیا سالانہ ایک لا کھ ٹیکس دہندگان کا آڈٹ کرنے کی بھی صلا حیت نہیں۔ ایف بی آر گز شتہ سال قرعہ ا ندازی میں آڈٹ میں آنے والے ہزا روں کیسز کا آڈٹ مکمل نہیں کر سکا ہے کیو نکہ ایف بی آر کے پاس آڈیٹر کی اتنی تعداد ہی موجود نہیں ہے ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق ٹیکس دہندگان کو تا خیر سے گوشوارے جمع کرائے جانے پر20ہزار سے 40ہزار روپے تک جرمانہ بھی ا دا کرنا ہو گا تنخواہ دار ٹیکس دہندہ کو 20ہزار روپے جبکہ کاروبار کرنے والے ٹیکس دہندگان کو 40،000ہزا ر روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا تاہم ایف بی آر جرمانے کی رقم میں کمی بیشی بھی کرسکتا ہے تا خیر سے گوشوارے جمع کرانے پر سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا تنخواہ دار طبقے کو ہے کیونکہ انہیں ہر حال میں 20ہزار روپے جرمانے کی رقم ا دا کرنا ہو گی۔ ایف بی آر کے ذرا ئع کے مطابق تاخیر سے گوشوارے جمع کرانے والے ٹیکس دہندگان آڈٹ نو ٹسز خودکار طریقے سے بذریعہ کمپیوٹر جا ری کیے جا رہے ہیں جبکہ یہ بات بالکل صاف ہے کہ ایف بی آر ان کے آڈٖٹ مکمل نہیں کر سکتا اس لیے ایف بی آر ان ٹیکس دہندگان سے جرمانے کی رقوم و صول کر کے انہیں کلیئر قرار دے دے گا اور اس طریقے سے اگر فی ٹیکس دہندہ چا لیس ہزا ر کی بجا ئے ایوریج 20ہزا ر روپے جرمانے کی رقم کی بھی و صول کی جا تی ہے تو ایف بی آر کو 20ارب 44کروڑ روپے کی آمدن ہو گی۔ ایف بی آر کے ذرا ئع کے مطابق ادارے کے پاس خود کا ر طریقے سے جاری ہونے والے نوٹسز سے نمٹنے کا کو ئی طریقہ موجود نہیں ، اتنے بڑی تعداد میں ٹیکس دہندگان کو جا ری کردہ آڈٹ نو ٹسز کا صیح طریقے سے آڈٹ نہیں کیا گیا تو آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایف بی آر کے سالا نہ آڈٹ میں ادارے کی اہلیت اور صلا حیت پر کئی سوالا ت کھڑے کر سکتا ہے جبکہ ایف بی آر اتنے بڑے آڈٹ کیسز کو سمیٹنے کے لیے ابھی تک کسی قسم کی حکمت عملی تیا ر نہیں کر سکا ۔ کیسز کی یہ تعدا د ایف بی آر کے آڈیٹرز کے لیے بھی پریشانی کا با عث بن گئی ہے جبکہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ حکامنے بھی سرجوڑ لیے ہیں کیو نکہ اتنی بڑے تعداد میں ٹیکس دہندگان کو اگر ایک مرتبہ آڈٹ کیسز میں کلیر کر دیا جاتا ہے تو پھر قانون کے مطابق آئندہ تین سال تک ان دس لا کھ سے زائد ٹیکس دہندگان کا آڈٹ نہیں ہو سکے گا ان ٹیکس دہندگان میں زیادہ تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے ۔