اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس آخری مرحلے میں داخل ہوگیا،آئندہ ہفتے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنائے جانے کاامکان ہے ۔سابق وزیراعظم نے اپنے دفاع میں کسی کوبطور گواہ پیش نہ کرنے کے فیصلہ سے عدالت کوآگاہ کردیاہے جبکہ میاں نوازشریف نے بیان مکمل کرتے ہوئے کہاہے کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں میرے مرحوم والد نے قائم کی جبکہ اس وقت حسین نواز کی عمر 29 سال تھی۔دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بیان مکمل ہونے پر عدالت نے فریقین سے حتمی دلائل طلب کرلیے۔ساتھ ہی عدالت نے نواز شریف کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی متفرق درخواستوں کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔اسلام آباد کی احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران سماعت نواز شریف کی جانب سے عدالت کو اپنے دفاع میں کسی گواہ کو پیش نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ میں نے العزیزیہ یا ہل میٹل قائم کی ہو، اس کے علاوہ نیب یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ حسن نواز اور حسین نواز میرے زیرِ کفالت تھے۔نواز شریف کی جانب سے کہا گیا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ میرا العزیزیہ یا ہل میٹل کے انتظامی معاملات میں کردار رہا اور ساتھ ساتھ میرے خلاف فردِ جرم ثابت کرنے میں بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔یہ کیس میرے مخالفین کی طرف سے لگائے گئے الزامات اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی یکطرفہ رپورٹ کی بنیاد پر بنائے گئے۔نواز شریف نے بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں غلط طریقے سے مجھے العزیزیہ اور ہل میٹل کا مالک ظاہر کیا گیا جبکہ واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے علاوہ کسی گواہ نے میرے خلاف بیان نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا معزز بینچ بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے مکمل مطمئن نہیں تھا ۔عدالت میں انہوں نے بتایا کہ واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جبکہ ان دونوں نے اعتراف کیا کہ العزیزیہ اور ہل میٹل میری ملکیت میں ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔انہوں نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں میرے مرحوم والد نے قائم کی جبکہ اس وقت حسین نواز کی عمر 29 سال تھی۔سابق وزیر اعظم نے عدالت میں بیان دیا کہ میں پاکستان کا بیٹا ہوں، اس مٹی کا ذرہ ذرہ مجھے پیارا ہے، اس ملک کے حالات بدلنے کے لیے جو کچھ کیا اسے اللہ کا فضل سمجھتا ہوں۔نواز شریف نے کہا کہ ملک میں موٹروے کا جال بچھا ہے، 5 سال میں جو کام کیے اس کی نظیر 70 سال میں نہیں ملتی۔میں مطمئن ہوں میرے خلاف کوئی کرپشن کا ثبوت نہیں ہے، سارا معاملہ مفروضوں پر مبنی تھا ۔نواز شریف نے احتساب عدالت کے جج سے کہا کہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام اس وقت لگایا جاتا ہے جب کرپشن کا ثبوت نہ ملے۔ میرے بچے معاشی طور پر خود کفیل ہیں، میرے بیٹے بیرون ملک موجود ہیں اور ان ممالک کے قوانین کے مطابق ہی کاروبار کر رہے ہیں۔تفتیش کے دوران کسی کاروباری معاملے میں گڑ بڑ کے ثبوت نہیں ملے،حسین نواز نے 2010 میں پیسے بھیجنے شروع کیے لیکن تب بھی میں عوامی عہدے پر نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا اور تفتیشی افسر نے حلفیہ اقرار کیا تھا کہ میرے خلاف ثبوت نہیں ملے جبکہ میں نے اس احتساب کے عمل کے دوران ہر طرح کی قربانی بھی دی، اس سارے مرحلے میں مجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچا مگر میں پیچھے نہیں ہٹا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں اگر دھکا نہ دیا جاتا تو بیٹے شاید بیرون ملک کاروبار نہ کر رہے ہوتے، اس ملک میں سیاست دان کا بیٹا کاروبار کرلے تو جرم بن جاتا ہے جبکہ بیرون ملک جا کر کام کریں تو بھی مسئلہ بنتا ہے، ایسی صورتحال میں میرے جیسا سیاستدان کیا کرے۔سیاستدانوں کے بچوں کیخلاف ملک کے اندر اور باہر کاروبار کرنا جرم بن جاتاہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے اللہ پر کامل یقین ہے اور عدالت سے انصاف کی توقع ہے۔نوازشریف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھجوایا گیا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے لیکن واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے علاوہ کسی گواہ نے میرے خلاف بیان نہیں دیا،تفتیش کے دوران کسی کاروباری معاملے میں گڑبڑ کے ثبوت نہیں ملے،عدالت نے بیان مکمل ہونے کااعلان کرتے ہوئے فریقین سے اس پر حتمی دلائل طلب کیے ہیں ۔نوازشریف کیجانب سے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہ کرنے بارے عدالت کوآگاہ کرنے کے فیصلے پر آئینی وقانونی ماہرجسٹس (ر)کمال احمدنے ’’ امت‘‘ سے گفتگومیں کہاکہ نوازشریف کواپنے دفاع میں گواہ ضرور پیش کرناچاہیے تھا، کوئی گواہ پیش نہ کرناان کے کیس کوکمزور کرسکتاہے ۔