امت رپورٹ
اورکزئی ایجنسی میں پاک فوج کی جانب سے قائم امن کو سبوتاژ کرنے اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کیلئے اہل تشیع کے اکثریتی علاقے میں منعقد میلے کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ انتظامیہ کے متضاد دعوئوں نے پورے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دھماکہ، نصب بم کے ذریعے کیا گیا۔ جبکہ مقامی ضلعی انتظامیہ اپنی کوتاہی چھپانی کیلئے اسے خودکش حملہ قرار دے رہی ہے۔ واقعے میں تادم تحریر تیس سے زائد افراد جاں بحق، جبکہ چالیس سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت نوجوانوں اور کم عمر بچوں کی ہے، جو میلے میں مختلف اشیا فروخت کرنے کیلئے آئے تھے۔ دھماکے کے بعد میلے میں انسانی اعضا دور دور تک بکھر گئے۔ سیکورٹی اداروں نے کلایہ بازار سمیت میلے کے چاروں اطراف علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ خیبر پختون میں طویل عرصے کے بعد گزشتہ روز (جمعہ کو) ہونے والے دھماکے نے عوام کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق 2006ء میں پاک فوج کی جانب سے اورکزئی ایجنسی میں آپریشن کے دوران ہزاروں افراد نے نقل مکانی کی تھی۔ چند ماہ قبل اورکزئی ایجنسی کے لوگوں کو واپس جانے کی نہ صرف اجازت دی گئی، بلکہ علاقے میں کئی سال بعد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی و تجارتی سرگرمیاں بھی شروع ہو گئی تھیں ۔2006ء سے قبل کلایہ بازار کے قریب اہل تشیع کے اس علاقے میں ہر جمعہ کی صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک میلہ منعقد ہوتا تھا۔ بعد ازاں شدت پسندی کی وجہ سے یہ میلہ بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم سیکورٹی اداروں کی جانب سے شدت پسندی کے خاتمے کے بعد چند مہینوں سے یہ میلہ دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔ جبکہ اورکزئی جو ماضی میں فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے کشیدگی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا، اس سال محرم الحرام میں وہاں انتہائی ہم آہنگی پائی گئی اور کئی سال بعد اہل تشیع اور سنی عمائدین نے مل کر محرم کے انتظامات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا۔ جمعہ کے روز صبح دس بجے کے قریب جب خریدار میلے میں جمع ہونا شروع ہوئے تو اچانک زور دار دھماکے سے افراتفری اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ابتدائی طور پر تیس افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات تھیں، جبکہ چالیس سے زائد افراد زخمی تھے، جن میں دس انتہائی زخمیوں کو کوہاٹ منتقل کر دیا گیا ہے، جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق دھماکہ خودکش تھا۔ تاہم عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پہلے سے بم نصب کیا گیا تھا اور انتظامیہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے اسے خودکش حملہ قرار دے رہی ہے۔ ادھر سیکورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کلایہ بازار اور قرب و جوار میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔ جبکہ سیکورٹی اداروں نے زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں منتقل بھی کیا۔ سیکورٹی اداروں کے مطابق ابھی تعین کیا جا رہا ہے کہ حملہ خودکش تھا یا پہلے سے بارود نصب کیا گیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق دھماکے کے بعد میلے میں انسانی اعضا دور دور تک پھیل گئے تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت ان بے روزگار بچوں اور نوجوانوں کی ہے جو میلے میں اپنا سامان فروخت کیلئے اسٹال لگاتے ہیں اور اپنے لئے ہفتے بھر کے رزق کا بندوبست کرتے ہیں۔ زخمیوں میں بھی اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے، جو ہفتے بھر اس میلے کا انتظار کرتے ہیں اور دور دراز علاقوں سے مختلف اشیا فروخت کرنے کیلئے اس میلے کا رخ کرتے ہیں۔ خیبر پختون میں طویل عرصے بعد اس خوفناک دھماکے نے عوام کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ مقامی انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ خیبرپختون میں قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد یہ دہشت گردی کا پہلا بڑا واقعہ ہے اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو پہلی بار دہشت گردی ایک بڑے واقعے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے میں صوبائی حکومت ناکام نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختون صرف اخبارات اور ٹی وی کو بیانات جاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جس میں انہوں نے واقعے کی مذمت کی ہے۔ جبکہ اسپیکر مشتاق غنی نے بھی بیان جاری کر کے مذمت کر دی ہے۔ لیکن وزارت داخلہ کا قلمدان پاس ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ نے نہ تو زخمیوں کی عیادت کیلئے کوہاٹ کا دورہ کیا اور نہ ہی اورکزئی ایجنسی گئے۔ تادم تحریر دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی تھی۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس دھماکے میں بیرونی ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ قبائلی اضلاع اور خاص طور پر کرم اور اورکزئی ایجنسیوں میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے میں ماضی میں بھی بیرونی قوتوں کا ہاتھ رہا ہے۔ اس حوالے سے اعلیٰ سیکورٹی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس دھماکے میں جو بھی ملوث ہوا، اس کے خلاف کارروائی کیلئے بھر پور اقدامات کئے جائیں گے۔
٭٭٭٭٭