محراب شاہ آفریدی
دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں سے خالص چمڑا اور اُس سے تیار ہونے والی اشیا بڑی تعداد میں برآمد کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن پچھلے کئی برسوں سے مذکورہ کاروبار شدید بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی زر مبادلہ میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی، بلکہ ٹینری صنعت سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں۔
پشاور میں چمڑے کے کاروبار کیلئے شعبہ بازار میں ’’دو دروازے‘‘ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ 50 سالہ حاجی حیات خان بھی اپنے باپ دادا کے زمانے سے اس کاروبار سے وابستہ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ برس سے دن بدن یہ کاروبار تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی چمڑے کیلئے بہترین مارکیٹ چین تھا، جہاں پر خالص چمڑے سے تیار ہونے والی اشیاء برآمد کی جاتی تھیں، جبکہ دوسری بڑی مارکیٹ یورپ، تیسرے نمبر پر امریکہ اور دیگر سرد ممالک شامل ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اب چین نے نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مصنوعی چمڑا تیار کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے پوری مارکیٹ کو کنٹرول کیا جاتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر اپنا ایک مقام حاصل کرکے پاکستان جیسے ممالک سے برآمدی چمڑے کی مارکیٹ کو انتہائی کمزور کردیا ہے۔
پشاور میں گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ عالمگیر خان کا کہنا ہے کہ اُن کی دکان میں مصنوعی چمڑے سے تیار کردہ کوٹ 1500 سے 2500 روپے میں دستیاب ہیں جس میں اچھی کوالٹی اور بہتر رنگت کی بنا پر گاہگ زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ خالص چمڑے سے تیار کوٹ کی قیمت 6 سے8 ہزار روپے ہوتی ہے، لیکن اُس کے بارے میں کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ یہ کافی مہنگا ہے اور اس میں محدود رنگ ملتے ہیں۔ یورپ یا دیگر سرد ممالک سے اگر کوئی آجاتا ہے تو وہ خرید لیتے ہیں، باقی اس کو گودام میں ہی رکھتے ہیں۔ کیونکہ دکان میں وہی مال رکھا جاتا ہے جو زیادہ بکتا ہے۔
کریم اللہ پچھلے 10 برس سے چمڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ برس سے یہ کاروبار تنزلی کا شکار ہے۔ پہلے یہاں سے تقریباً 60 فیصد مال چائنہ، جبکہ باقی دوسرے ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ لیکن پچھلے پانچ چھ برسوں سے چمڑے کی مانگ میں حیران کن طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ یہاں پر مقامی مارکیٹ میں بھی چمڑے کی قیمت تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پہلے دُنبے کی کھال 600 روپے تھی، اب 100 روپے ہے۔ بکرے کی پہلے 400، اب 100سے بھی کم ہے۔ بھینس کی پہلے 3500 روپے تھی، اب 800 ہے۔ بڑی گائے کا ریٹ 2500 تھا، اب 1000 ہے۔ جبکہ چھوٹی گائے کی کھال 2000 روپے سے 2 سے 3 سو تک پہنچ گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ پہلے پندرہ بندے کام کر رہے تھے۔ لیکن اب بمشکل سے تین، چار بندوں کی دیہاڑی ہی پورا کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی مارکیٹ میں افغانستان سے بھی کھالیں در آمد کی جاتی ہیں جس کو مقامی اور بین الاقوامی منڈیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ آل ٹرانسپورٹ یونین طورخم کے صدر حاجی عظیم اللہ طورخم بارڈر پر پچھلے کئی برسوں سے افغانستان سے آنے والی کھالوں کے ٹرکوںکو کسٹم حکام سے کلیئر کرا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین یا چار سال پہلے افغانستان سے مہینے میں 40 ٹرالر صرف طور خم کے راستے پاکستان آتے تھے۔ لیکن مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کھالوں کی کساد بازاری کی وجہ سے اب یہ تعداد 8 سے 12 ٹرالر رہ گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کھالوں کی مد میں افغانستان کا پورا انحصار پاکستان پر ہی تھا، لیکن موجودہ دور میں زیادہ کھالیں ترکی اور دوسری منڈیوں سے افغانستان آرہی ہیں، کیونکہ یہاں پر قیمتیں اتنی کم ہیں کہ جس سے مزدور، گاڑی اور گوداموں کا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا ہے۔
واجد، گودام میں قصاب خانے سے لائی گئی کھالوں کی صفائی میں مصروف رہتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ چمڑے کا کاروبار کم ہونے کی وجہ سے اُن کے کئی ساتھی فارغ ہیں، جبکہ باقی مزدورں کی تنخواہیں کم کردی گئی ہیں۔ اُن کے بقول چمڑ ے کے علاوہ بڑے جانوروں کے دم کے بال صاف کرکے کلو کے حساب سے 100 سے 150 تک مل جاتے ہیں۔ جس سے رنگ برنگ کے برش تیار کئے جاتے تھے، لیکن چائنہ مصنوعی بال کے ذریعے ان سے کئی گنا بہتر برش تیارکرنے لگا ہے۔
کھالوں کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے پاکستان میں فلاحی اور خیراتی اداروں کی آمدن پر بھی کافی بُرا اثر پڑا ہے اور نقدی کی شکل میں آنے والا بہت بڑا حصہ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں کراچی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت مختلف جماعتوں پر کھالیں جمع کرنے پر پابندی بھی لگائی جا چکی ہے۔
لعل محمد ایک مذہبی جماعت کے رفاہی ادارے میں ذمہ درایاں سنبھال رہے ہیں۔ اُن کے ادارے کے فنڈ میں ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی کھالوں سے بڑی مقدار میں عطیات جمع ہوتے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول زیادہ تعداد میں کھالیں موصول ہو جائیں تو بھی فروخت کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پہلے کھالوں سے کافی رقم آجاتی تھی جس کی مدد سے پورا سال فلاحی کام بآسانی سرانجام دیئے جاتے تھے۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں اور ادارہ دوسرے ذرائع سے پیسے جمع کرنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
حیات نامی تاجر کے مطابق پاکستان میں چمڑے سے کوٹ، جوتے، دستانے، چپل، موزے، چھوٹے و بڑے پرس اور سیٹ کوشن تیار کئے جاتے تھے۔ لیکن چمڑے سے مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی درآمد پر بھاری کسٹم ڈیوٹی عائد ہو جانے کی وجہ سے یہ انڈسٹری عملاً مفلوج ہو گئی ہے اور متعدد کارخانے بند ہوچکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے جلد اقدامات نہ کئے تو چمڑے کا اتنا بڑا کاروبار پاکستان سے ختم ہوجائے گا۔
ٹینری ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق چیئرمین گلزار فیروز کا کہنا ہے کہ ٹینریز کی صنعت جانوروں کی کھالوں کو پروسیس کرتی ہے اور انہیں چمڑے میں تبدیل کرتی ہے۔ پاکستان میں کھالوں کی قیمت کا تعین عالمی مارکیٹ کی صورتحال اور ضرورت کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پچھلے کئی برسوں سے عالمی منڈی میں کساد بازاری، چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ، اٹلی اور روس میں معاشی سست روی نے بھی چمڑے کی عالمی مارکیٹ کو کریش کردیا ہے اور اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹینری انڈسٹری بھی شدید بحران کا شکار ہے اور اس کے وجہ سے اس کے متعدد شعبے بند ہوگئے ہیں۔ کئی تاجروں کے پاس کئی کئی سال کے اسٹاکس پڑے ہوئے ہیں اور مال آگے فروخت نہیں ہو رہا۔
اسٹیٹ بنک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جون 2018ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان سے چمڑے کی برآمدات ایک ارب ڈالر رہیں، جس میں سے خام چمڑے کی برآمدات 35 کروڑ ڈالر، جبکہ چمڑے سے تیارہ کردہ مصنوعات کی مالیت 73 کروڑ ڈالر رہی۔ بینک کی ایک پورٹ کے مطابق سال 2014ء اور 2015ء میں پاکستان کی لیدر انڈسٹری کیلئے بہترین سال ثابت ہوا۔ اس سال خام چمڑے اور اس سے بنی مصنوعات کی برآمدات 1 ارب 23 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر رہی تھی۔