نمائندگان امت
پولیس کی بھاری نفری نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں تحریک لبیک کا جلسہ نہیں ہونے دیا۔ اتوار کی صبح ہی سے لیاقت باغ کے اطراف بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کر دیئے گئے تھے، جن کی مدد کیلئے ایلیٹ فورس اور رینجرز کے دستے بھی ہائی الرٹ تھے۔ اس صورت حال میں اگر ٹی ایل پی کے کارکن لیاقت باغ کی طرف آنے کی کوشش کرتے تو خونیں تصادم کا خدشہ تھا۔ اسی اندیشے کے پیش نظر تحریک لبیک کے قائم مقام امیر ڈاکٹر علامہ محمد شفیق امینی نے تقریباً دو بجے دوپہر ایک ویڈیو پیغام میں جلسہ تا حکم ثانی ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود تقریباً پونے تین بجے چند درجن کارکنوں نے کالج روڈ کی جانب سے لیاقت باغ کی طرف آتے ہوئے لیاقت روڈ کو کراس کرنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کرکے متعدد کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
لیاقت باغ راولپنڈی میں تحریک لبیک کا جلسہ روکنے کیلئے پولیس نے ٹی ایل پی کے خلاف پورے صوبے میں کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، جس میں راولپنڈی کی قیادت بھی گرفتار ہوئی اور متحرک کارکنان بھی گرفتار یا روپوش ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل راولپنڈی کے کسی بھی مقام پر قابل ذکر احتجاج سامنے نہیں آیا۔ فیض آباد چوک پر بھی پولیس موجود تھی۔ یہ چوک بھی سارا دن پُر امن رہا اور ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں رہا۔ حفظ ما تقدم کے طور اسلام آباد کی انتظامیہ نے فیض آباد سے سو میٹر آگے اسلام آباد کے داخلی مقام اسلام آباد ایکسپریس وے پر پچھلے دو دن سے نصف درجن کے لگ بھگ کنٹینرز لا کر رکھے ہوئے تھے۔ لیکن چونکہ اس مقام کے قریب بھی مظاہرین نہیں آئے، اس لیے اس کی نوبت ہی نہیں آئی کہ مظاہرین کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کیلئے کنٹینروں کو استعمال میں لایا جائے۔ لیاقت باغ کے سامنے مری روڈ کے دوسری جانب تمام گلیوں کے اندر بھی سادہ لباس اہلکار صبح سے ہی مامور تھے، تاکہ آبادی کے اندر ٹی ایل پی کارکنوں کی ممکنہ سرگرمی اور نقل و حرکت سے آگاہ رہا جا سکے۔ اگر وہ اچانک ان گلیوں سے نکل کر میٹرو ریلوے اسٹیشن کے نیچے سے گزر کر آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں تو اسے ناکام بنایا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر بڑی تعداد میں موقع پر موجود پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے دستے ہائی الرٹ رہے۔ بکتر بند گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ جبکہ لیاقت باغ کے احاطے میں ہی واقع ریسکیو 1122 کے اضافی اہلکار کل اتوار کی چھٹی کے باوجود ڈیوٹی پر موجود ہائی الرٹ تھے۔ ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اس علاقے کی صورت حال سے ایک ایک منٹ کی خبر لے رہے تھے۔ سیکورٹی فورسز کی بڑی تعداد سے کچھ دیر تک لیاقت باغ کے سامنے ٹریفک کی تیزی سے روانی میں فرق پڑا، لیکن مری روڈ بند نہیں ہوا۔ اسی طرح لیاقت باغ کے اطراف کے بازار اور گلیاں بھی کھلی رہیں۔
دوسری جانب کراچی کے صوبائی حلقے پی ایس 87 سے منتخب رکن اور تحریک لبیک پاکستان کے رہنما جندل علی قادری کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمارے رہنما علامہ رضی حسینی کے گھر پر تین بار چھاپہ پڑ چکا ہے۔ خود میرے گھر پر بھی پولیس دو مرتبہ چھاپے مار چکی ہے۔ ہمارے قائم مقام امیر علامہ شفیق امینی نے پیر کو (آج) مرکزی شوریٰ کے ممبران کا اجلاس بلایا ہے۔ اگر حکومت کل تک ہمارے رہنماؤں کو رہا نہیں کرے گی تو ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ غیر قانونی چھاپے مارنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کراچی سے ہمارے رہنما سید جیلان شاہ، سیدزمان علی شاہ جعفری کے علاوہ مدرسہ نورالقرآن شاہ فیصل کالونی کے طلبا کو بھی پولیس نے گرفتار کیا ہے‘‘۔
تحریک لبیک کے رہنام مفتی عابد مبارک المدنی کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے کسی مخصوص ایجنڈے پر تحریک لبیک کے کارکنان کو گرفتار کیا ہے، جبکہ ٹی ایل پی کے کارکنان ہمیشہ سے پُرامن رہے ہیں۔ حکومت ایک جانب ان سے معاہدے کرتی ہے اور دوسری جانب انہیں گرفتار کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گرفتار کارکنان اور رہنمائوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ حکومت جان بوجھ کر ملک میں انارکی پھیلانا چاہتی ہے، جو کسی کے مفاد میں بھی نہیں۔‘‘ تحریک لبیک کے مرکزی رہنما قاری راشد قریشی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے خلاف ریاستی ظلم و جبر جاری ہے۔ گرفتاریوں، نظر بندیوں اور گولیوں سے تحریک کے کارکنان کے جذبات کو ابھارا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ یہ ہمارے علم میں نہیں۔ مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہمیں اس وجہ سے سزا دی جارہی ہے کہ ہم نے حق کی بات ہے اور اس پر ڈٹ گئے ہیں کہ آسیہ ملعونہ کو رہا کرنا ناانصافی اور انصاف کا قتل ہے، جس کی سزا ہمیں دی جارہی ہے۔ ہم اور ہماری قیادت نے پُر امن ہونے کا ثبوت ممتاز قادری شہید کے جنازے سے لے کر اب تک دیا ہے۔ مگر اب ہمارا امتحان لیا جارہا ہے‘‘۔
تحریک لبیک کراچی کے ترجمان محمد علی قادری کا کہنا تھا کہ ’’ہم کراچی کے احتجاج میں زخمی ہونے والوں کے ساتھ مصروف ہیں، جو سول اسپتال کے انتہائی نگہداشت میں زیر علاج ہیں۔ انہیں ضروری طبی سہولیات دی جارہی ہیں، تاہم ان میں سے ایک کی حالت بدستور خطرے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں زندگی نصیب فرمائے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کی جانب سے پرامن شہریوں پر فائرنگ کرکے انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم ہمارے علمائے کرام کی جانب سے کارکنان کو زخمی ہونے کے باوجود حوصلہ دیا گیا اور پُرامن رکھا گیا ہے۔ لہذا ہمارا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ مرکزی قائدین جو بھی اعلان کریں گے، ہم اس کے مطابق آگے چلیں گے‘‘۔
ادھر خیبرپختون میں بھی تحریک لبیک کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون جاری ہے۔ ٹی ایل پی کے سینکڑوں کارکنوں کو مختلف اضلاع سے گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ختم نبوت تحریک کے رہنمائوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔ دوسری جانب ٹی ایل پی کے جلسے میں شرکت کیلئے راولپنڈی جانے والے قافلوں کو پنجاب کی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور، چار سدہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور نوشہرہ سے تحریک لبیک پاکستان کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر کے جیل روانہ کر دیا گیا ہے۔ پشاور میں پولیس کی جانب سے ٹی ایل پی کے کارکنان کیخلاف رات گئے کریک ڈائون کیا گیا، جس میں متعدد رہنمائوں سمیت درجنوںکارکنوں کو شہر کے مختلف علاقوں سے حراست میں لے کر ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کیخلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور روڈ بندش میں ملوث متعدد کارکنوں کی پہلے سے نشاندہی کر لی گئی تھی اورگزشتہ روز رات گئے ان کے خلا ف پولیس ٹیموں نے کارروائی کی۔ پولیس ذرائع نے تاحال تحریک لبیک کے سرگرم رہنما شفیق امینی کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں تحریک لبیک کے خلاف مڈ نائٹ آپریشن میں سوات سے 13، بونیر سے 10 اور لوئر دیر سے 4 رہنما گرفتار کئے گئے۔ گرفتار افراد 3 ایم پی او کے تحت بونیر تیمرگرہ جیل منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں تحریک لبیک کے ڈویژنل صدر علامہ رضا خان، ڈسٹرکٹ سوات کے صدر پیر سید اور نائب صدر ضلع سوات نور محمد سمیت 27 افراد شامل ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق سوات سے 13، بونیر سے 10 اور ضلع لوئر دیر سے ٹی ایل پی کے 4 رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق گرفتار شدگان میں تینوں اضلاع کے صدور اور تحصیل صدور شامل ہیں۔ گرفتاری کے بعد تمام افراد کو تین ایم پی او کے تحت ڈگر اور تیمر گرہ جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ ضلع صوابی میں بھی پولیس نے کریک ڈائون کر کے تحریک لبیک کے ضلعی امیر مولانا رحمت علی تورڈھیر، مولانا مسرور احمد ضلعی رہنما، ڈاکٹر فضل الٰہی، مولانا فضل مالک، عبدالصمد، فضل مالک، حبیب غالب شاہ ، علی رحمان، محمد لطیف ساکنان تورڈھیر، مولانا عطاء الرحمن ، اعجاز الرحمان ، محمد فاروق، جمال بادشاہ، حنیف، سعد رفیق اور محمد شاہ روم کو گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری گزشتہ شب عمل میں لائی گئی اور ان تمام کارکنوں کو پولیس تھانہ چھوٹا لاہور اور تورڈھیر نے گرفتار کیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی روڈ بلاک کرنے کے 7 مقدمات میں نامزد تحریک لبیک اور دیو بند مسلک کے 20 سے زائد قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ کوہاٹ سے تحریک لبیک کے 22 اہم قائدین کو گرفتارکرکے 3 ایم پی او کے تحت ڈسٹرکٹ سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کردیا گیا۔ چارسدہ میں تحریک لبیک پاکستان کے ضلعی صدر ریاض خان اور 17 کارکنان کو گرفتار کیا گیا، جن میں ایاز خان، عادل، عارف، سیمون وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ اہلسنت و الجماعت کے رہنما مولانا اشرف علی شیر پائو کو تھانہ داود زئی کی حدود میں محفل میلاد پروگرام سے ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے مردان منتقل کر دیا گیا۔ ٹی ایل پی کے صوبائی رہنما فلک نیاز نے مرکزی امیر خادم حسین رضوی سمیت کارکنوں کے گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔ تحریک لبیک کے صوبائی ترجمان سید محرم شاہ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں مساجد اور مدارس کے ائمہ کرام بھی شامل ہیں۔ محرم شاہ کا مزید کہنا تھا کہ راولپنڈی میں تحریک لبیک کی شہداء کانفرنس عوام کے جان و مال اور املاک کو نقصان پہنچانے کیلئے منعقد نہیں کی جارہی تھی بلکہ گزشتہ سال فیض آباد دھرنے میں آپریشن کے دوران تحریک لبیک کے جن کارکنان کو شہید کیا گیا تھا، ان کی یاد میں شہداء کانفرنس منعقد کی جارہی تھی۔ دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان میں تحریک لبیک اور ختم نبوت کے اہم رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا جس میں ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ ڈی آئی خان مولانا قاضی عبد الحلیم نعمانی، صدر تنظیم اتحاد القراء مولانا قاری اسلم محمدی، مہتمم جامعہ نعمانیہ صالحیہ مولانا وحیدالدین اور شیخ الحدیث جامعہ نعمانیہ مولانا اشرف علی بھی شامل ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک خیبر پختون میں کریک ڈائون کا سلسلہ جاری تھا۔