لوگوں کا غیر مصدقہ ڈیجیٹل مواد پر انحصار بڑھ گیا
کراچی(رپورٹ: رائوافنان)جدید دور کے آلات نے طلبہ کو مصدقہ تعلیم سے دور کردیا،انٹرنیٹ پر علمی و تحقیقی مواد کا مصدقہ ہونا ہی سب سے بڑا سوال ہے،لیپ ٹاپ ،موبائل نے کتب خانے اور لائبریاں ویران کردیں،حکومتی سطح پر کتب فراہم کرنے اور لائبریریز کو ڈیجیٹلائز کرنے میں بھی عدم دلچسپی ہے،8 سال سے سرکاری کالجز کتابوں سے محروم ہیں،پبلشرز کم ہونے سے کتب خانے بند ہونے لگے۔تفصیلات کے مطابق طلبہ دن بدن کتابوں سے دور ہونے لگے،کتاب سے طالب علم کا لگائونہ ہونے کے برابر رہ گیا،تعلیمی اداروں نے ڈیجیٹل لائبریریز کی طرف رخ کرنا شروع کردیا ہے ،جبکہ سرکاری جامعات میں لائبریریاں ویران ہوچکی ہیں، جامعات میں تعلیمی نصاب بھی پی ڈی ایف فائل و دیگر فارمیٹ میں طلبہ کو موبائل و انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کی محمود حسین لائبریری میں عملے کی تعداد 114 ہے ،جبکہ آنے والے طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے،دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ محکمہ تعلیم کی عدم توجہ کے باعث سرکاری کالجوں کی لائبریریز بھی ویران پڑی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے کا بجٹ مختص ہونے کے باوجود صوبے کے300 سے زائدسرکاری کالجوں کی لائبریریز کو8سال سے کتابوں کی سپلائی ہی نہیں کی گئی اور 80 سے زائد کالجز میں کئی برسوں سے لائبریرین بھی نہیں ہے،اس جدید دور میں محکمہ تعلیم کے افسران ڈیجیٹل لائبریری کے نام سے بھی واقف نہیں،روز بروز طلبہ کی دلچسپی لائبریریز سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ذرائع کے مطابق 2010میں آخری مرتبہ سر کاری کالجوں کی لائبریریز کو کتابیں فراہم کر دی گئیں تھیں،اس کے بعد سے صوبائی حکومت کو کالجز میں کتابیں فراہم کرنے کا خیال بھی نہ آیا،اکثر سرکاری کالجوں کی لائبریریز میں قیام پاکستان سے کچھ عرصہ بعد تک کی کتابیں دستیا ب ہیں اور اس کے بعد سے انہیں سرے سے جاری ہی نہیں کی گئی،صوبائی حکومت غیر ملکی پبلیشرز کی کتابو ں کی خریداری کے لیئے بذریعہ اے جی سندھ فی کالج لاکھوں روپے ایک فاؤنڈیشن کو فراہم کرتی ہے،جو اپنی من مانی کرتے ہوئے کالجوں کی ڈیمانڈ کے مطابق کتابیں فراہم ہی نہیں کرتی،کالجز کتابوں سے محروم ہیں تو دوسری جانب سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے،دنیا بھر میں لائبریریز کا نظام ڈیجیٹلائز ہوچکا ہے اور ڈیجیٹل لائبریریز میں کتابوں کا ذخیرہ روایتی لائبریریز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ دستیاب ہوتا ہے،’’امت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئےجامعہ کراچی محمود حسین لائبریری کی سابقہ انچارج ملاحت کلیم نے بتایا کہ اب فارمیٹ چینج ہوچکا ہے اور طلبہ اب کمپیوٹر کے ذریعے کسی بھی مضمون یا موضوع کا پرنٹ نکال کر اس کا مطالعہ کرلیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پرنٹ آئوٹ نکلنا اور کتاب سے پڑھنے میں زیادہ فرق نہیں صرف فارمیٹ تبدیل ہوگیا ہے،جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈیجیٹلائز لائبریریز میں جو بھی تعلیمی مواد انٹرنیٹ پر ہے ،وہ کتنے فیصد مصدقہ ہو سکتا ہے۔؟ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر جو بھی مواد ہے ،اس کی تصدیق کرنا بہت ضروری ہے اور ردو بدل کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ لائبریری انفارمیشن اینڈ سائنسز میں بھی یہی موضوع پڑھایا جاتا ہے کہ کس طرح معلومات کی تصدیق کی جائے اور اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر مواد کو مصدقہ ویب سائٹس اور دیگر کے ذریعے تصدیق کرنا ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جدید دور کے ساتھ جدید آلات بھی آچکے ہیں اور روز مرہ کی زندگی میں اب جدید برقی آلات کا سہارا ہی لیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بیشتر لائبریریاں ڈیجیٹل ہوچکی ہیں، جبکہ تمام کو ڈیجیٹلائز کرنے کی اشد ضرورت ہے،انہوں نے بتایا کہ لائبریریز کو ڈیجیٹلائز کرنے میں تمام جامعات کو درپیش مسائل کاپی رائٹ کے ہیں ،کیونکہ کتاب کو کمپیوٹر فائل میں تبدیل کرنے کے لئے متلعقہ مصنف کی اجازت کی ضرورت ہے اور بغیر اجازت کے فارمیٹ تبدیل نہیں کیا جا سکتا،جامعہ کراچی کے ڈین آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری کا کہنا تھا کہ لکھنے اور پڑھنے کا رجحان طلبہ میں ختم ہوچکا ہے،جب لکھاری ہی نہیں رہے گا تو کتابیں بھی کم شائع ہوگی اور پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی کمی آئی گی۔ان کا کہنا تھا کہ معیاری کتابیں بہت مہنگی ہوتی ہے اور ہر آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے بھی رجحان کم ہے،انہوں نے بتایاکہ پہلے اساتذہ خود لائبریریز کا رخ کرتے تھے اور طلبہ سے بھی لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے پر زور دیتے تھے ،تاہم نہ اب اساتذہ خود جاتے ہیں اور نہ ہی طلبہ،ان کا کہنا تھا کہ نوجوان میں پڑھنے لکھنے کا رجحان کم ہونے کے ذمہ دار والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بچوں کو ہزاروں روپے کے موبائل فون اور کمپیوٹر تو خرید کر دے سکتے ہیں ،جبکہ کتابیں خرید کر دینے میں اب والدین کی بھی توجہ نہیں،ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر یا ڈیجیٹل لائبریریز میں جو بھی مواد ہوتا ہے ۔واقعی اس کے مصدقہ ہونے پر سوالیہ نشان ہے، اب کسی چیز کی تصدیق ہی نہیں کی جاتی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر بھی کتابیں فراہم کرنے اور طلبہ کو کتب کی طرف راغب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے،ویلکم بک و پبلشرز کے اصغر زیدی کا کہنا تھا کہ پبلشرز کی تعداد میں نصف فیصد تک کمی آچکی ہے جس کی وجہ سے جو کتابیں پہلے ہزار سے زائد شائع ہوا کرتی تھی اب ان کی تعداد 3 سو سے بھی کم رہ چکی ہے،اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ کتابیں خریدنے میں 60 فیصد تک رجحان کم ہوا ہے جس کی وجہ سے بیشتر کتب خانے بند ہوچکے ہیں۔