اینٹی کرپشن کو کرپٹ افسران کا ریکارڈ دینے سے واٹر بورڈ گریزاں
کراچی(اسٹاف رپورٹر)اینٹی کرپشن واٹر بورڈ میں اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔نوٹس ملنے کے باوجود واٹر بورڈ حکام نے کرپشن میں ملوث افسران کا ریکارڈ فراہم کرنے سے گریز کیا، جب کہ افسران خود کو معاملات طے کرنے لگے ہیں۔اینٹی کرپشن نے کنکشن سینکشن کے بغیر بلنگ کرنے والے افسران کو گزشتہ روز طلب کیا تھا، جنہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔امت نے ریونیو کی مد میں کرپشن کی نشاندہی ایک ہفتہ قبل کی تھی۔امت کو موصول اینٹی کرپشن کے مکتوب نمبر INSP/ACE/Sindh/K/2018/244 کے مطابق ایم ڈی واٹر بورڈ اور ڈی ایم ڈی ریونیو کو لکھا ہے کہ ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے والے افسران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کے لیے آپ ریکارڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں فراہم کریں تاکہ شہریوں کو پانی کی کمی سے دوچار کرنے والے افسران و ملوث افسران کے خلاف موثر کارروائی ممکن ہوسکے۔مکتوب کے مطابق اینٹی کرپشن نے واٹر کنکشن سینکشن کا ریکارڈ بینک چالان کی رسیدیں انفرادی بلنگ کا ضابطہ اور اس حوالے سے ایس او پی بھی فراہم کریں۔ مکتوب میں لکھا گیا ہے مذکورہ ریکارڈ 27نومبر کو دن 11بجے دفتر اینٹی کرپشن ڈائریکٹر کے پاس پہنچا دیں،تاہم ایم ڈی واٹر بورڈ ، ڈی ایم ڈی ریونیو سمیت متعلقہ افسران ، ڈپٹی ڈائریکٹر بلنگ حمید پٹھان اور ڈی ایم ڈی اسداللہ خان کے بھائی ڈپٹی ڈائریکٹر نعیم اللہ کی مبینہ کرپشن کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ڈپٹی ڈائریکٹر شادمان ٹاؤن نعیم اللہ نے اپنے بھائی اسداللہ خان کی شہہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر بلنگ حمید پٹھان نے اپنے قریبی عزیز و پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی کا اثر ورسوخ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔حمید پٹھان نے اینٹی کرپشن کو ریکارڈ کے بجائے معاملات طے ہوجانے کا عندیہ دیتے رہے ۔ذرائع کا کہنا ہے واٹر بورڈ میں عام تاثر ہے کہ اینٹی کرپشن حکام کے نوٹس کی قیمت ہوتی ہے، جس کی ادائیگی کے بعد نوٹس ختم ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ افسران کی جانب سے بھی اسی نوعیت کے تاثر دیئے جارہے ہیں۔معلوم رہے مذکورہ کروڑوں روپے کی کرپشن کی نشاندہی امت نے ایک ہفتہ قبل کی تھی، جس کے بعد اینٹی کرپشن نے مذکورہ افسران کے خلاف تحقیقات کے لیے ادارے کو لیٹر جاری کیا ہے۔اس حوالے سے ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی ، تاہم ان کا نمبر مسلسل بند رہا ہے ۔جب کہ ڈپٹی ڈائریکٹر حمید پٹھان سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا، تاہم ان کا نمبر بھی بند تھا۔