آرمی چیف سے تمام مکاتب فکر کے جید علما کی ملاقات
کراچی(امت نیوز)ملک کے تمام مکاتب فکر کے جید علما کرام کے نمائندہ وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزشتہ دنوں ملاقات کی۔وفد میں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مفتی رفیع عثمانی ،مفتی تقی عثمانی ،مفتی محمد نعیم ، مفتی عبدالرحیم، مفتی منیب الرحمن ، مولانا یوسف قصوری ،مفتی عبدالرحمن سلفی ، مفتی محمد نعیمی مجددی ، علامہ سید علی کرار نقوی ، علامہ جعفر صادق سمیت دیگر شامل تھے۔علما کرام نے آرمی چیف سے ملکی نظریاتی و جغرافیائی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی۔مذہبی طبقے میں پائے جانے والے مختلف خدشات و شبہات سے آرمی چیف کو آگاہ کیا۔آرمی چیف نے سوشل میڈیا پر ملک و ملت کے خلاف دشمنوں کی خفیہ سازشوں اور پروپیگنڈے کے سدباب کے لیے علما کرام سے رائے طلب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دشمن ملک میں نسلی ، لسانی و معاشرتی بنیادوں پر تفرقہ و تشدد پھیلانے کے درپے ہیں۔حالیہ آسیہ کیس میں بیرون ملک بھیجنے کی خبریں اور طاہر داوڑ کی شہات پر چلائی جانے والی مہم میں نہ صرف مماثلت ہے، بلکہ سوشل میڈیا میں کئی اکائونٹ مذہبی اور نسلی منافرت میں پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں۔ علما کرام رہنمائی کریں کہ ملک و ملت اور اداروں کے خلاف ہونے والی مذموم سازشوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسلمان ناموس رسالتؐ اور ختم نبوت کے محافظ ہیں۔اس حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں۔ان قوانین کی موجودگی میں گلیوں اور سڑکوں پر گالی دھونس کے ذریعے فیصلے کرنا کسی صورت قوم کے مفاد میں نہیں۔آرمی چیف نے مزید کہا کہ قومی و مذہبی معاملات ہو یا کشمیر، فلسطین کا مسئلہ سمیت ڈاکٹر شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی کے بارے میں کسی بھی پس پردہ ڈیل کی ہماری قومی حمیت اجازت نہیں دیتی۔قومی فیصلے قومی اداروں میں آئین و قانون کی عملداری میں ہی کیے جائیں گے۔ آرمی چیف نے علما کرام سے درخواست کی کہ فتویٰ جیسی انتہائی حساس اور بڑی ذمہ داری ایسے عناصر کے ہاتھ میں جانے سے روکیں، جو قومی قوانین اور علم و عمل سے عاری ہوں اور فتوی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ریاست قوانین کا احترام کروانے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔علما کرام نے ملاقات پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک و ملت کو مزید تختہ مشق نہیں بننے دیں گے۔ریاست کے ساتھ ہر قسم کا پہلے بھی تعاون کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔آسیہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ فل کورٹ ریفرنس میں علما کا نقطہ نظر سننے کے بارے میں غور کرے۔علما نے یہ بھی کہا کہ ریاستی ادارے مذہبی رہنمائوں اور اداروں سے اعتماد اور رابطے منقطع نہ ہونے دیں ،کیونکہ رابطوں کے فقدان کا فائدہ وہ عناصر اٹھائیں گے جو دلیل کے بجائے اونچی آواز اور علم کے بجائے تشدد اختیار کرتے ہیں۔اداروں کی مضبوطی ریاست کی مضبوطی ہے ۔