نذر الاسلام چودھری
انڈونیشیا کے جزیرے سماترا میں حکام نے مساجد میں نمازیوں اور مدارس میں طلبا کی کم حاضری کی وجہ سے انٹرنیٹ اور وائی فائی کی ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ شروع کر دی ہے۔ اقدام مقامی علما کی سفارشات پر اٹھایا گیا ہے۔ اس ضمن میں تمام نجی کمپنیوں اور انٹرنیٹ کیفے مالکان کو نمازوں اور مدارس کی کلاسز کے اوقات میں نیٹ سروس بند رکھنے کا پابند کر دیا گیا ہے۔ جبکہ طلبا اور شہریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی سرگرمیوں میں اس قدر مشغول نہ ہوں کہ نماز اور دینی تعلیم کو فراموش کردیں۔ جکارتہ پوسٹ سے گفتگو میں آچے ریاست کے کوآرڈی نیٹر حلم یادی مختارالدین نے بتایا ہے کہ ضلعی حکام کی جانب سے انٹرنیٹ کی سرگرمیوں پر معیادی پابندیوں اور انٹرنیٹ کیفیز کی سہولیات کو محدود کرنے کا والدین اور علما سمیت اساتذہ کرام نے زبردست خیر مقدم کیا ہے اور بتایا ہے کہ حکومتی اقدامات سے مساجد اور مدارس میں دوبارہ طلبا و نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ایسی پابندی بہت ضروری ہے۔ ضلعی حکام نے علمائے دین کی شکایات پر فوری ایکشن لیتے ہوئے نہ صرف انٹرنیٹ کی اسکریننگ کا حکم دے دیا ہے، بلکہ اس پورے ضلع میں تمام انٹرنیٹ کیفے کے مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نماز کے اوقات سے نصف گھنٹہ قبل کیفے بند کر دیں اور نماز کے نصف گھنٹے کے بعد ہی کیفے دوبار کھولیں۔ جبکہ نماز مغرب کے بعد کیفے کو مکمل طور پر بند کردیا جائے، ورنہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اور ان کا کیفے کا لائسنس بھی معطل یا منسوخ کر دیا جائے گا۔ بورنیو ڈسٹرکٹ میں بھی تمام نئے انٹرنیٹ کیفے اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے مقامی مسلمانوں کو دیئے جانے والے وائی فائی کنکشن منقطع کر دیئے گئے ہیں اور صرف ان ہی گھرانوں کو وائی فائی کنکشن کا اہل قرا ر دیا گیا ہے جن کے بچے یونیورسٹیوں کی تعلیم اور تحقیق کے کاموں میں مصروف ہیں۔ لیکن ان کو بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ نماز کے اوقات میں انہیں مساجد میں ہر قیمت پر حاضر ہونا ہے۔ نماز کے اوقات میں انٹرنیٹ کا استعمال نہ صرف دینی بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی ممنوع ہے۔ واضح رہے کہ آچے ریاست کے بیشتر علاقوں میں شریعت کا نفاذ کیا گیا ہے اور سگریٹ نوشی سمیت منشیات فروشی، شراب نوشی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں ہیں اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو عوامی مقامات پر سزائیں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جرائم کی شرح صفر ہوچکی ہیں اور پولیس کا کام محض نمائشی گشت کرنا رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں یاد رہے کہ پوری ریاست میں تمام ہوٹلوں اور ریستورانز کو بھی ایک نئے قانون کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے جوڑے کو طعام یا قیام کی سہولیات ہرگز فراہم نہ کریں جو میاں بیوی نہیں ہوں یا ایک دوسرے کیلئے نا محرم ہوں۔ بورینو میں موجود ایک مقامی امام مسجد نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ انٹر نیٹ کی لعنت اس علاقے میں جب تک نہیں پہنچی تھی تو مساجد بھی بھری رہتی تھیں اورسینکڑوں بچے مساجد و مدارس میں نماز ظہر اور مغرب کے بعد ذوق و شوق سے قرآن پڑھنے اورسنانے آتے تھے۔ لیکن جب سے یہاں انٹرنیٹ اور وائی فائی سسٹم لگایا گیا ہے، تب سے بچوں کا قرآن فہمی اور تلاوت کا پروگرام متاثر ہو رہا ہے اور بتدریج مساجد کے نمازیوں اور مدارس کے طلبا کی تعداد گھٹ رہی تھی۔ انڈونیشی میڈیا نے لکھا ہے کہ انٹرنیٹ کی نئی سروسز آچے ریاست کے تفریحی مقام ’’کوری باروح‘‘ پر فراہم کی گئی تھیں۔ لیکن دو ماہ میں اس علاقے کے متعدد دیہات میں انٹرنیٹ کی وبا نے طلبا سمیت عام شہریوں کو شدید متاثر کیا اور نمازیوں سے بھری رہنے والی مساجد میں آنے والوں کی تعداد مسلسل گرگئی جس پر ائمہ مساجد نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔ کیونکہ انٹرنیٹ کی دلچسپیوں کی وجہ سے ظہر اور مغرب کی نمازوں کے بعد مساجد اور مدارس میں قرآن فہمی اور تلاوت کے پروگرامز میں طلبا و طالبات کی دلچسپیاں انتہائی کم ہوگئی تھیں۔ اس پر مساجد کے امام حضرات نے اپنے جمعہ کے خطبات میں حکام کی اس جانب توجہ مبذول کرائی تھی اور دیہات کے سرپنچوں سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ علما کے ساتھ تبلیغی دورے کریں۔ اور اس دوران شہریوں کو بتائیں کہ انٹرنیٹ سسٹم نے ان کو دین اور عبادات سے دور کردیا ہے۔ جبکہ طلبہ بھی دینی تعلیم میں سستی برت رہے ہیں۔ آچے بانڈہ میں موجود صحافی کرمی شریف کا کہنا ہے کہ امام حضرات نے اس سلسلے میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے گفتگو کی اور ان کو بتایا کہ جن مساجد میں نماز مغرب کے بعد طلبا و طالبات قرآن کی تلاوت اور قرات کیلئے تشریف آتے تھے، وہاں اب کوئی دینی تعلیمی پروگرام منعقد نہیں ہورہا۔ کیونکہ طلبہ اور عام شہری انٹرنیٹ کی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔