قسط نمبر3
سید نبیل اختر
انسداد تجاوزات مہم کے نگراں میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمٰن کے ایم سی کی جانب سے سرکاری اراضیوں کی غیر قانونی لیز ختم کرانے میں ناکام ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف تیسر ٹاؤن میں 220 ایکڑ اراضی پر بسائی گئی گلشن نور نامی بستی سے اب تک قبضہ واگزار نہیں کرایا جاسکا۔ تقریباً 3 ہزار پلاٹ ایم ڈی اے کی ملکیت پر قائم کئے گئے ہیں۔ 2017ء میں سابق میونسپل کمشنر ڈاکٹر اصغر عباس نے بھی گلشن نور خالی کرانے کے دعوے کئے تھے۔ سرکاری اراضی پر مکانات، پٹرول پمپ، نجی اسکول، شادی ہالز، بینکوئٹ اور اسپتال بھی قائم کر دیئے گئے ہیں۔ سرکاری اراضی اب بھی پر دھڑلے سے تعمیرات جاری ہیں۔ غیر قانونی لیز والے پلاٹ کی قیمت 20 لاکھ روپے تک وصول کی جارہی ہے۔ ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی نے کے ایم سی کی تجاوزات خاتمے کی مہم سے گلشن نور کا نام ہی نکال دیا۔
کے ایم سی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر سرکاری اراضی سے قبضہ واگزار کروانا ہے، تاہم اہم ذرائع کے مطابق موجودہ مہم کا رخ یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی سے تجاوزات واگزار نہیں کرائی جا سکی ہیں۔ ایسی کئی غیر قانونی آبادیاں ہیں، جن میں ایک گلشن نور بھی شامل ہے۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ تیسر ٹائون میں ایم ڈی اے کی 220 ایکڑ اراضی پر چائنا کٹنگ پلاٹوں کو قانونی حیثیت دی گئی۔ یہ کام مصطفیٰ کمال کے دور میں ہوا۔ جس میں بیابان علاقے کو غیر قانونی طریقے سے کچی آبادی کے طور پر پہلے ریگولرائز کیا گیا اور پھر متحدہ دہشت گردوں کو کے ایم سی کی لیز جاری کر کے 2 ہزار سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ اس کٹنگ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا، جس کی وجہ سے اب پلاٹوں کی تعداد تین ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پی ایس پی کے سربراہ نے سٹی ناظم کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی لیز کے اجرا کو قانونی شکل دینے کیلئے سٹی کونسل سے قرارداد منظور کروائی۔ کے ایم سی کے 2 ڈائریکٹر مظہر خان اور ریحان خان کی خدمات متحدہ رہنما شمیم صدیقی کو دے دی گئیں، تاکہ پلاٹوں کے لیز آرڈر نکالے جائیں۔ چائنا کٹنگ کے اہم کردار چنوں ماموں نے لندن قیادت کی ہدایت پر پہلے 2 ہزار پلاٹوں کی غیر قانونی لیز حاصل کر کے متحدہ دہشت گردوں اور کارکنوں میں بانٹے۔ سرکاری اراضی کی بڑے پیمانے پر فروخت سے متحدہ رہنمائوں نے 5 ارب روپے سے زائد بٹورے۔ حاصل شدہ رقم لندن قیادت اور کراچی میں موجود رہنمائوں میں بھی تقسیم کی گئی۔
تحقیقات میں پتا چلا کہ مصطفیٰ کمال کے دور میں پی این ٹی کالونی میں غیر قانونی لیز پلاٹوں کی بندر بانٹ سے قبل ہی جنگل و بیابان تیسر ٹائون میں گلشن نور کے نام سے ہزاروں پلاٹوں کوکاٹ کر چائنا کٹنگ کی گئی۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی کے 2 ڈائریکٹرز ریحان خان اور مظہر خان نے از خود مصطفیٰ کمال کو اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ دونوں ڈائریکٹرز نے ابتدائی طور پر ملیر ڈیولمپنٹ اتھارٹی کی 220 ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی اور سائٹ وزٹ بھی کروائے۔ مصطفیٰ کمال نے منصوبے پر عملدرآمد کی ہدایات جاری کیں اور مذکورہ اراضی لیز کرانے کیلئے سٹی کونسل سے قرارداد منظور کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ محض مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کیلئے 22 جون 2009 ء کو سٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا اور اس اجلاس میں ملیر ڈیولمپنٹ اتھارٹی کی خالی اراضی پر غیر قانونی طریقے سے اراضی کو آبادی ظاہر کیا گیا اور پلاٹوں کو لیز دینے کی منظوری لی گئی۔
’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق سرجانی ٹاؤن کے سیکٹر 38 میں کئی ایکڑ اراضی کو گلشن نور کا نام دیا گیا اور اسے سیکٹر 37 قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں 21 دسمبر 2009ء کو اتھارٹی لیٹر نمبر No.GEN/Sectt/MDA/2009/2239 کے ذریعے ملیر ڈیولمپنٹ اتھارٹی سے باقاعدہ این اوسی بھی حاصل کیا گیا۔ ’’امت ‘‘ کو ملنے والے لیز نقشے کی دستاویزات میں ایم ڈی اے اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کچی آبادی کے ڈی ڈی او پلاننگ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ دونوں اس غیر قانونی کام میں سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے ساتھ شریک رہے۔ ریگولرائزیشن اینڈ امپروومنٹ پلان میں گلشن نور کو سیکٹر 37 اور 38 کا جوائنٹ ڈیمارکشن قرار دیا گیا۔ لیز کے نقشے میں ڈائریکٹر کچی آبادی نے دستخط بھی کئے اور ایک ایسی اراضی کو 1985ء سے قبل آباد قرار دیا گیا، جہاں اب بھی کئی ایکڑ اراضی خالی پڑی ہے۔ قانون کے مطابق 1985ء سے قبل رہائش پذیر افراد کا قبضہ تسلیم کرکے لیز دی جاتی ہے۔ جن افراد کے پاس 1985ء سے قبل یوٹیلیٹی اور دیگر دستاویزات موجود ہوں، انہیں لیز دستاویزات کی تیاری کے دوران شواہد پیش کرنا ہوتے ہیں۔ تاہم اس منصوبے میں تمام قواعد بالائے طاق رکھ دیئے گئے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ پلاٹوں کی جعلی لیز بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈائریکٹر مظہر خان کو بطور تحفہ 4 سو گز اراضی دی گئی، جہاں انہوں نے پیٹرول پمپ قائم کیا۔ 6 سال تک پیٹرول پمپ رکھنے کے بعد ڈائریکٹر مظہر خان نے اسے 6 کروڑ روپے میں فروخت کر دیا۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ لندن قیادت کی ہدایت پر مصطفیٰ کمال نے 2009ء میں گلشن نور کا پورا سیٹ اپ شمیم صدیقی کو سونپا اور انہیں چنوں ماموں سے ملنے والے احکامات پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق شمیم صدیقی نے کے ایم سی کے دونوں افسران کو ناظم آباد میں واقع اپنے دفتر بلایا، جہاں ایک سال تک کئی متحدہ دہشت گردوں، مقتول کارکنوں کو پارٹی وفاداری کے عوض پلاٹوں کی لیز بناکر دی جاتی رہی۔ دونوں افسران، کے ایم سی دفاتر میں کم ہی آتے اور سارا وقت شمیم صدیقی کے ساتھ رہتے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس سے قبل گذری کے علاقے پی اینڈ ٹی کالونی میں چائنا کٹنگ اور غیر قانونی لیز کے اجرا کی منصوبہ بندی کی جاچکی تھی۔ تاہم تیسر ٹائون گلشن نور کے پروجیکٹ کیلئے پی اینڈ ٹی کو بعد میں منظور کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ پی اینڈ ٹی کالونی کیلئے بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا جو گلشن نور کیلئے اپنایا گیا تھا۔
تحقیقات کے دوران سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں پی اینڈ ٹی کالونی کا شیٹ نمبر 4 بھی غیر قانونی طور پر لیز کر نے کی تفصیلات معلوم ہوئیں، جن سے پتا چلا کہ پی اینڈ ٹی کالونی گذری کی شیٹ نمبر 1 2, اور 3 کو لیز کیا جا رہا تھا۔ اسی دور میں کے ایم سی کے افسران نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شیٹ نمبر 4 کی لیز کی بھی منظوری حاصل کی، جس کا کہیں کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ تاہم کے ایم سی ذرائع شیٹ نمبر 4 میں کروڑوں روپے بٹورنے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو 7 جنوری 2010ء کی قرارداد نمبر 595 کا عکس موصول ہوا، جس میں شیٹ نمبر 4 کا حوالہ دے کر لیز کی منظوری حاصل کی گئی۔ لیٹر کے مطابق پی اینڈ ٹی کالونی 23 مارچ 1985ء سے قبل کچی آبادی ہے، جو بذریعہ نوٹیفکیشن گورنمنٹ سے منظور شدہ ہے۔ اس سے قبل پی اینڈ ٹی کالونی شیٹ نمبر 3,2,1 بذریعہ قرارداد نمبر 300، مورخہ 19 نومبر 2007ء منظوری حاصل کرچکی ہے اور وہاں لیزوں کا اجرا کیا جاچکا ہے۔ جبکہ شیٹ نمبر 4 اور شیٹ نمبر 2 اور 3 کا پارٹ نمبر1 پی اینڈ ٹی کالونی کا نقشہ سابقہ کے ایم سی نے تیار کیا ہے۔ یہاں کے مکین قدیم رہائش کے باوجود اب تک لیز کی سہولت سے محروم ہیں۔ پی اینڈ ٹی کالونی محکمہ ٹیلی گراف کے ملازمین پر مشتمل آبادی تھی، جو پاکستان بننے کے وقت صرف پی اینڈ ٹی کے ملازمین کیلئے قائم کی گئی تھی۔ عرصہ 62 سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ لوگ اس زمین پر محکمہ پی اینڈ ٹی کو اپنی رہائش کا معاوضہ ادا کر رہے تھے اور ریٹائرڈ خاندان بغیر کسی ادائیگی کے زمین پر قابض تھے، جبکہ زمین کی ملکیت شروع ہی سے محکمہ شہری ضلعی حکومت کراچی (کے ایم سی) کی تھی۔ محکمہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف نے اس زمین کے حصول کے سلسلے میں پیش رفت کی تھی، لیکن بوجہ عدم ادائیگی یہ زمین حاصل نہ کر سکی۔ یہ آبادی ترقیاتی کام نہ ہونے کی بنا پر شہر کے اس پر رونق علاقے میں وہ مقام حاصل نہ کرسکی جو شہر کے دوسرے علاقوں کو حاصل ہے۔ جبکہ اگر اس زمین کا صحیح استعمال پلاننگ کے تحت ہوتا اور اس زمین کو بسایا جاتا تو ممکن تھا کہ شہری ضلع حکومت کو اس سلسلے میں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن چونکہ اراضی کو صحیح خطوط پر استوار نہیں کیا گیا اور روز بروز ملازمین خود ہی اپنے طور پر تجاوزات قائم کرتے رہے، اس لیے ضروری ہوگیا کہ اس زمین کو درست پلاننگ کے ساتھ کچی آبادی کے طور پر مستقل کر دیا جائے، تاکہ غیر قانونی اور قبضہ مافیا سے متعلق لوگوں سے اس زمین کو محفوظ کر کے ان مکینوں کو لیز دے دی جائے، جو تمام سہولیات کی فراہمی کے باوجود آج تک ملکیت حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ لہذا یہ اجلاس پی اینڈ ٹی کالونی صدر ٹائون، کراچی شیٹ نمبر 4 اور شیٹ نمبر 2 کے پارٹ ون اور شیٹ نمبر 3 کے پارٹ ون کے لئے آئوٹ پلان کی منظوری عطا کرتے ہوئے وہاں 1985ء سے قبل کی حامل کنندگان کو سابقہ نقشے کے مطابق لیز کی منظوری عطا کرتا ہے اور محکمہ کچی آبادی شہری ضلع حکومت کراچی کو ہدایت کرتا ہے کہ سابقہ نقشے کے مطابق مکینوں کیلئے جلدازجلد لیز کے اجرا کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ قراردار کثرت رائے سے منظوری کرلی گئی تھی، جبکہ اجلاس میں شریک جماعت اسلامی کے ناظم عبدالرزاق نے اس کی مخالفت کی تھی۔
’’امت‘‘ نے اسی طرح گلشن نور کے پلاٹوں کی لیز منظوری سے متعلق سٹی کونسل کی قرارداد حاصل کرنے کی کوشش کی تو چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے۔ سٹی کونسل کے متعلقہ شعبہ میں 2009ء میں منظورشدہ کسی قرارداد کا کسی بھی افسر کو علم ہی نہیں۔ سٹی کونسل کی قرارداد پبلک پراپراٹی ہیں اور کے ایم سی کی ویب سائٹس پر بھی ڈالی جاتی ہیں۔ ’’امت‘‘ نے کے ایم سی کی ویب سائٹ بھی کھنگالی، تاہم وہاں بھی 2009ء کی کسی بھی قرارداد کا نام و نشان نہیں ملا۔ ذرائع نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر انکروچمنٹ کے خلاف جاری آپریشن سے بچنے کیلئے کے ایم سی کے کرپٹ افسران نے متعلقہ دستاویزات چھپادی ہیں۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات اور اظہار برہمی کے بعد کے ایم سی افسران نمائشی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ذرائع نے سپریم کورٹ کی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 29 نومبر 2017ء کو جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بنچ نے چائنا کٹنگ کے نتیجے میں قائم گھر، دکانیں، شادی ہال اور دیگر تجاوزات مسمار کرنے کیلئے آپریشن کا حکم دیا تھا۔ بلدیہ عظمیٰ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی اراضی پر قائم تمام چائنا کٹنگ، تجاوزات ختم کرنے کیلئے بھر پور آپریشن کرے۔ عدالت نے صوبائی حکومت اور تمام ضلعی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ کے ڈی اے اور بلدیہ عظمیٰ کے ساتھ تعاون کریں اور دو ماہ کے اندر کراچی کو تمام تجاوزات سے پاک کردیں۔ تاہم میونسپل کمشنر سمیت کے ایم سی کے اعلیٰ افسران محض نمائشی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور گلشن نور جیسے بڑے پروجیکٹس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گلشن نور کی 220 ایکڑ اراضی کی جعلی لیز بنانے والے کے ایم سی افسران نے میونسپل کمشنر کو مذکورہ ایشو سے متعلق رپورٹ ہی نہیں کیا۔ تاکہ کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔ ’’امت‘‘ نے موجودہ صورتحال جاننے کیلئے گلشن نور کا سروے کیا تو معلوم ہوا کہ کے ایم سی کی جانب سے جعلی لیز والے تین ہزار پلاٹ فروخت کیلئے مختلف اسٹیٹ بروکرز کو دیئے گئے ہیں، جن کی چار کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔ وہیں ایک اسٹیٹ بروکر نے 120 گز کے 4 سے 5 لاکھ روپے اور 200 گز کے 8 لاکھ، جبکہ 400 گز کے پلاٹ کی قیمت 14 لاکھ روپے بتائی۔ بروکرنے اپنا نام نہیں بتایا اور کہا کہ گلشن نور میں جتنے بھی بروکر ہیں، سب ان کے بڑے بھائی کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’میرے بڑے بھائی اب پی ایس
پی کے ذمہ دار بھی ہیں‘‘۔ معلوم ہوا ہے کہ 2017ء میں میونسپل کمشنر ڈاکٹر اصغر نے دعویٰ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں کے ایم سی کے افسران فہرسیتں مرتب کررہے ہیں اور کراچی میں جہاں بھی تجاوزات ہوں گی، وہ ختم کی جائیں گی۔ ان کے مطابق ان پر کسی کا کوئی دباؤ نہیں ہے اور وہ ہر قسم کی غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ یقینی بنائیں گے۔ تیسر ٹاؤن میں قائم غیر قانونی بستی گلشن نور کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مذکورہ بستی کی لیز اور موجودہ صورتحال کا گوگل ارتھ سے مشاہدے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ کے ایم سی ذرائع نے بتا یا کہ موجودہ میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی اس سے متعلق کے ایم سی کے حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔ ان افسر نے بتایا کہ ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی نے تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق فہرست سے گلشن نور کا نام خارج کر دیا ہے اور ماتحت افسران کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ میونسپل کمشنر کو اس متعلق کوئی معلومات فراہم نہ کریں۔
(جاری ہے)