قسط نمبر 4
سید نبیل اختر
کراچی کی پوش آبادی ڈیفنس سے متصل پی اینڈ ٹی کالونی میں کے ایم سی کی لگ بھگ 2 ہزار گز اراضی پر قائم تجاوزات کیخلاف اب تک کوئی آپریشن شروع نہیں کیا گیا ہے۔ مذکورہ اراضی پر کے ایم سی کے کرپٹ ڈائریکٹرز نے 350 سے زائد پلاٹوں کو غیر قانونی لیز دلاکر چائنا کٹنگ کی تھی۔ قبضے سے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔2008ء سے 2011ء کے دوران دی جانے والی لیز پاکستان ٹیلی کام کے ملازمین کے نام پر دی گئی۔ 100سے زائد پلاٹوں پر 600 سے زائد فلیٹ بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ بلڈر مافیا نے کے ایم سی افسران کی آشیرباد کے باعث نقشے منظور کرائے اور نہ ہی متعلقہ اداروں سے این او سی حاصل کی ہے۔ ادھر سرکاری زمین کو جعلسازی سے لیز کرنے والے افسران کے خلاف کی جانے والی تحقیقات بھی سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ شیٹ نمبر 3 کی آڑ میں شیٹ نمبر 4 کے پلاٹوں کو جعلی لیز جاری کرکے اراضی بلڈرز کے حوالے کردی۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ پی اینڈ ٹی کالونی گزری میں غیر قانونی لیز جاری ہونے کے بعد محکمہ انسداد تجاوزات نے وہاں قائم تجاوزات کے خلاف کارروائی سے گریز کررکھا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ آبادی میں کے ایم سی کے کرپٹ ڈائریکٹرز تعمیراتی پروجیکٹس میں حصہ دار بھی ہیں جس کی وجہ سے یہاں کارروائی نہیں کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ پی اینڈ ٹی کالونی گزری میں بلڈرز نے متحدہ دہشت گردوں سے معاہدہ ناموں پر اراضی حاصل کرکے تعمیرات شروع کردی ہیں۔ کسی پلاٹ کے نقشے منظور کرائے گئے اور نہ ہی کے ایم سی سے این او سی حاصل کی گئی ہے۔ بلڈنگ پلان واٹر بورڈ سرٹیفکٹ کیلئے واجبات ادا کرنے سے بھی گریز کیا گیا ہے۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو بھی سوا کروڑ روپے کا چونا لگایا گیا۔ بیشتراپارٹمنٹ سرکاری افسران و بیروکریٹس کے ساتھ پارٹنر شپ پر تعمیرکیئے جارہے ہیں۔ کے ایم سی کی غیر قانونی لیز کے حامل فلیٹ متحدہ ٹارگٹ کلرزکو بھی بانٹنے جائیں گے۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے متصل پی اینڈ ٹی کالونی میں متحدہ دہشت گردوں کی کالونی آباد کرانے کے لیئے 2008ء سے 2011ء کے دوران کے ایم سی کی غیر قانونی لیز دی گئی تھی۔ پلاٹوں کی لیز دہشت گردوں یا ان کے اہلخانہ اور پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کے ناموں پر الاٹ کی گئی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کالونی کے تمام پلاٹ، بلڈرز کا ہدف ہیں جن میں سے 50 سے زائد پر تعمیرات مکمل ہونے کو ہیں۔ اہم ذرائع نے بتا یا کہ مصطفی کمال جب شہر کے ناظم تھے اس دوران پی اینڈ ٹی کالونی کے رہائشیوں کی آڑ میں متحدہ دہشت گردوں کو غیر قانونی طور پر پلاٹوں کی لیز فراہم کی گئی تھی۔ قواعد کے برخلاف الاٹ کی جانے والی لیز پر اب کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس کی تعمیرات کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوگیا ہے۔ ذرائع نے بتا یا کہ ان کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیرات کیلیئے کے ایم سی، واٹر بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کو بھی ادائیگیاں نہیں کی گئیں جو 50 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بنتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک کمرشل پلاٹ کے تمام واجبات کی ادائیگی کم از کم ایک کروڑ روپے بنتی ہے جو متعلقہ اداروں کو نہیں دی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ کے ایم سی کی اراضی پر کمرشل پلاٹ کیلئے بلڈرز کو 50 سے 60 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح بلڈنگ پلان اور ماسٹر پلان کی منظوری بھی نہیں لی گئی جس کیلئے سرکاری خزانے میں فی پلاٹ 20 سے 25 لاکھ روپے جمع کرائے جانا تھے۔ اسی طرح واٹر بورڈ کے حصے میں 16سے 18لاکھ روپے فی پلاٹ کی مد میں آتے۔ ذرائع نے بتایا کہ بلڈرز مافیا نے پوری کالونی کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے جس میں سے 100سے زائد پلاٹوں پر 50 سے زائد کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات کا کام جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جن متحدہ دہشت گردوں سے پلاٹوں پر معاہدے کئے گئے ہیں، وہ زیادہ تر مفرور ہیں۔ تاہم بلڈرز نے ان سے معاہدے کے وقت یہ طے کیا ہے کہ لیز ان کے نام پر ہی رہے گی۔ جبکہ کثیر المنزلہ عمارتوں میں ایک منزل پر ان کیلئے بڑے فلیٹ بناکر دیئے جائیں گے۔ ذرائع نے بتا یا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ہدایت پر جن افراد کو لیز دی گئی، ان میں 190 گز کا پلاٹ ندیم احمد، 83.91 گز کا پلاٹ سرفراز احمد،97.76 گز کا پلاٹ ساجد رحمان ملک، 81.11 گز کا پلاٹ شاکرعلی ولد قادر علی، 94.57 گز کا پلاٹ ارشد خان، 171.11 گز کا پلاٹ ظہیرالدین، 157.02گز کا پلاٹ سید ظفر علی، 62.06 گز کا پلاٹ عشرت جہاں‘ 119.63 گز کا پلاٹ مسرور علی، 146.12 گز کا پلاٹ بشیر احمد خان‘ 130.88 گز کا پلاٹ شکیل احمد قاضی، 130 گز کا پلاٹ محمد طاہر حفیظ، 129.44 گز کا پلاٹ سید عارف شاہ، 215.72 گز کا پلاٹ شاہین اختر، 155.76 گز کا پلاٹ محمد طاہر، 93.34 گز کا پلاٹ عبدالقیوم، 172.90 گز کا پلاٹ نذیر حیدر، 201.48 گز کا پلاٹ محمد جنید خان، 179.51 گز کا پلاٹ زاہدہ بانو، 104.16 گز کا پلاٹ توصیف خان، 93.27 گز کا پلاٹ قمرالحسن صدیقی، 233.72 گز کا پلاٹ ندیم سعید، 171.80 گز کا پلاٹ غلام رسول ولد وحید بخش،153 گز کا پلاٹ محمد سلیم،231.11 گز کا پلاٹ محمد یوسف علی خان،189 گز کا پلاٹ عبدالغفور، 67.98 گز کا پلاٹ محمد انور، 320.16 گز کا پلاٹ بشیر احمد، 209 گز کا پلاٹ مرزا امین بیگ، 294.77 گز کا پلاٹ سید محمد عباس اور سید علی عباس،159گز کا پلاٹ محمد اقبال خان،165گز کا پلاٹ محمد ناظم علی نقوی،187.72گز کا پلاٹ شاہد حسن،138.47گز کا پلاٹ مہدی حسن،159گز کا پلاٹ بدر منیر اختر، 321.44گز کا پلاٹ محمد انور اور محمد سلیمان ، جبکہ 172.38گز کا پلاٹ سید بادشاہ حسین کے نام پر لیز کیا گیا۔12مارچ 2008ء کو شیٹ نمبر 1 کا 113.99 گز کا پلاٹ نظورا علی سیال، 315گز کا پلاٹ سید محمد شعیب رضوی، 158.88گزکا پلاٹ سعید احمد مغل، 158.88 گز کا پلاٹ محمد ریاض الدین،169.16گز کا پلاٹ شمیم اختر کے نام پر لیز کردیا گیا۔11جون 2008ء کو 213.79گز کا پلاٹ نویداحمدکے نام پر لیز کیا گیا۔ اسی طرح 196 گز کا پلاٹ سید نازش شجاع، 172.34گز کا پلاٹ محمد کامل قریشی،176.08گز کا پلاٹ محمد صلاح الدین،175.77گز کا پلاٹ جلیل احمد خان،84.52گز کا پلاٹ عبدالرحمن،66.05 گز کا پلاٹ ایس ایم نورالہدیٰ 218.6 گز کا پلاٹ محمد عظیم، 135گز کا پلاٹ محمد یعقوب خان،216.97گز کا پلاٹ قاسم علی،220.97گز کا پلاٹ نجمہ بیگم، 156گز کا پلاٹ محمد سلیم، 332.72گز کا پلاٹ عبدالجبار خان،236.25گز کا پلاٹ زاہد علی خان، 130.77گز کا پلاٹ سید افتاب احمد ،176.66گز کا پلاٹ نسیم الحق، 206.11گز کا پلاٹ سمیع الدین قاضی، 317.58گز کا پلاٹ احمد سمیع اقبال، 284.35گز کا پلاٹ رانا محمد الیاس، 192.38گز کا پلاٹ محمد ندیم،233.89گز کا پلاٹ ایس ایم صغیر بخاری، 200.88گز کا پلاٹ عارف رشید تاجی اور 58.33گز کا پلاٹ اقبال مسیح۔ 9 جولائی 2008ء کو 246.66 گز کا پلاٹ شمیم احمد، 101.83گز کا پلاٹ اشفاق حسین، 208.88گز کا پلاٹ محمد حبیب خان،108گز کا پلاٹ جلیل احمد،216.66گز کا پلاٹ سید محبوب شاہ، 235.76گز کا پلاٹ محمد ارشد اقبال خان،272.22گز کا پلاٹ سید ممتاز حسین شاہ، 177.22گز کا پلاٹ سلیم اختر ،103گز کا پلاٹ نرجس بانو،305.71گز کا پلاٹ ظہیراحمد خان،120گز کا پلاٹ اکرام الدین،106.22 گز کا پلاٹ اعجاز احمد،97.33گز کا پلاٹ عبدالمجید غوری،115.91گز کا پلاٹ ممتاز خان،72.22گز کا پلاٹ محمد شریف ،70.47گز کا پلاٹ محمد اکبر،72.11گز کا پلاٹ اسماعیل،60.55گز کا پلاٹ غلام رشید، 86.04گز کا پلاٹ نواب خان،131.71گز کا پلاٹ عبدالرزاق،119.50گز کا پلاٹ محمد ابراہیم، 273.83 گز کا پلاٹ حسین احمد قریشی اور تحسین احمد قریشی،270.21 گز کا پلاٹ سلطان صلاح الدین، 235.55گز کا پلاٹ محمد سیف الدین ولد فبیح الدین، 58.33گز کا پلاٹ ریاض الدین ، 231.13 گز کا پلاٹ سید راغب حسین، 182.92گز کا پلاٹ صدیق احمد خان، 155.69گز کا پلاٹ افتخار احمد،87. گز کا پلاٹ جمیل احمد، 73.94گز کا پلاٹ نعمان احمد صدیقی،94.35گز کا پلاٹ ناز پروین، 132.81گز کا پلاٹ جمال احمد، 85.80گز کا پلاٹ مقبول احمد صدیقی،51.85گز کا پلاٹ عبدالعدنان، 88.95گز کا پلاٹ سید اسد علی،82.08گز کا پلاٹ عابد شاہ،57.61گز کا پلاٹ محمد نعیم،78.72گز کا پلاٹ سعیدہ خاتون، 146.25گز کا پلاٹ محمد اشتیاق اور محمد اسحاق، 216.66گز کا پلاٹ قیصر جہاں، 221گز کا پلاٹ شوکت علی، 169.27گز کا پلاٹ سید ماجد علی،70.90گز کا پلاٹ سیدہ شہناز بانو،59.72گز کا پلاٹ فرحت جہاں بیگم ، 99.36گز کا پلاٹ سید شمس الحسن 58.93گز کا پلاٹ محمد عظیم خان، 66.05گز کا پلاٹ معین الدین، 42گز کا پلاٹ سہیل احمد، 92.50گز کا پلاٹ وقار احمد خطیب اور بلال احمد خطیب،196.80 گز کا پلاٹ مختار احمد، 165.73 گز کا پلاٹ پرویز یوسف، 225.13گز کا پلاٹ عدیل حمید،227.گز کا پلاٹ سید محمد ہارون 215.33گز کا پلاٹ محمد شمس الدین،79.33 گز کا پلاٹ فیاض،162.گز کا پلاٹ توصیف علی خان ، 64.44گز کا پلاٹ شاہ نواز حسین،56.94گز کا پلاٹ شیخ حمید،96.68گز کا پلاٹ سید شکیل علی،96.68گز کا پلاٹ محمد ارتضا،184.54 گز کا پلاٹ مرزا سلیم بیگ، 262.22گز کا پلاٹ محمد نذیر خان،157.44گز کا پلاٹ محمد ہمایوں قادری،77.21گز کا پلاٹ ناہید شمشاد،87.19گز کا پلاٹ محمد سلیم، 96.25گز کا پلاٹ شاہد افروز، زاہد افروز، عامر لطیف، 182.55 گز کا پلاٹ سید محمد شریف،261.11گز کا پلاٹ سید محمد ہاشم زیدی، 297.95گز کا پلاٹ ممتاز رحمان ،279.49گز کا پلاٹ جرار حسین زیدی، 233.33گز کا پلاٹ عنایت اللہ، 240.12گز کا پلاٹ شاہین بیگم ،53.83گز کا پلاٹ محمد اعظم خان، 171.11 گز کا پلاٹ عبدالعلیم خان، 145.95گز کا پلاٹ زاہدہ بیگم، 223.50گز کا پلاٹ سید محمد عرفان،129.77گز کا پلاٹ ملک محمد نثار، 222.44گز کا پلاٹ محمد اطہر انصاری ،68.57گز کا پلاٹ شفاعت اللہ، 184.16گز کا پلاٹ اطہر ، 69.05گز کا پلاٹ شاہد حسین انجم،206.73گز کا پلاٹ محمد عرفان خان،249.74 گز کا پلاٹ محمد سلیم صدیقی،67.66گز کا پلاٹ مقبول احمد،85.13گز کا پلاٹ زین العابدین ،عثمان احمد ،انوشہ مقصود،55.93 گز کا پلاٹ محمد زکی خان 122.62گز کا پلاٹ کنیز فاطمہ ،934گز کا پلاٹ حمیدہ بیگم،145.44گز کا پلاٹ جاوید اختر،228.37گز کا پلاٹ فراست اللہ خان‘ 93.01 گز کا پلاٹ محمد صدیقی،211.55 گز کا پلاٹ عبداللہ، 204.05گز کا پلاٹ سرفرازالدین چشتی، 56.22گز کا پلاٹ ممتاز بیگم، محمد جایدشیخ،59.76 گز کا پلاٹ رفیق حسین،67.19 گز کا پلاٹ جمال الدین قریشی 51.25گز کا پلاٹ آصف اقبال چشتی، 58.33گز کا پلاٹ اختر شریف،82.50گز کا پلاٹ سائمہ رحمان، 58.33گز کا پلاٹ خالد ،55.55گز کا پلاٹ نسیم احمد، 60گز کا پلاٹ آصف احمد،118گز کا پلاٹ سید ہاشم، 127.09گز کا پلاٹ عبدالمعین،226.37گز کا پلاٹ عاصم چشتی،57.61گز کا پلاٹ محمد اکبر،57.69گز کا پلاٹ زلیخہ بی، 148.75گز کا پلاٹ انوری بیگم‘ 124گزکا پلاٹ محمد حسین ‘محمد شاہد شیخ‘270.25 پلاٹ سعید اختر‘55.55گز پلاٹ بلقیس بیگم‘59.04گز پلاٹ رضوانہ ابراہیم ‘62.06گز کا پلاٹ سلیم‘238.88گز کا پلاٹ شیخ محمد‘59.94گز پلاٹ اشفاق احمد‘ 89.05پلاٹ رخسانہ شاہین ‘275.55گز کا پلاٹ عبدالرزاق خان‘ 69.62گز کا پلاٹ ابو بکر ‘150.16کا پلاٹ انصر حسین شیٹ نمبر 2کا پلاٹ محمد یعقوب 114شیخ جمن‘5 محمد افتخار اجمل ‘72 محمد قریش صدیق کے نام پر غیر قانونی طور پر لیز کیا گیا تھا۔
دوسری جانب کے ایم سی ذرائع نے بتا یا کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں پی اینڈ ٹی کالونی کا شیٹ نمبر 4 بھی جعلسازی سے لیز کردیا گیا تھا۔ قانون کے مطابق 1985ء سے قبل رہائش پزیر افراد کا قبضہ تسلیم کرکے اسے لیز دی جاتی ہے۔ لیکن کے ایم سی عملے نے خالی اراضی لیز کرائی تاکہ ان لیز پلاٹوں کو فروخت کیا جاسکے۔ لیز منظوری کیلئے ہیر پھیر بھی کیا گیا۔ کے ایم سی کے پاس شیٹ نمبر 4 کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ
جب پی اینڈ ٹی کالونی گزری کی شیٹ نمبر 1,2 اور 3 کو لیز کیا جارہا تھا، اسی دور میں کے ایم سی کے افسران نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شیٹ نمبر 4 کی لیز کی بھی منظوری حاصل کی جس کا کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ تاہم کے ایم سی ذرائع شیٹ نمبر 4 میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہونے کی تصدیق کررہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو 7 جنوری 2010ء کی قرارداد نمبر 595 کا عکس موصول ہوا جس میں شیٹ نمبر 4 کا حوالہ دے کر لیز کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ لیٹر کے مطابق پی اینڈ ٹی کالونی 23 مارچ 1985ء سے قبل کچی آبادی ہے جو بذریعہ نوٹیفکیشن نمبر SKAA/NOT/KAR -1/2007 مورخہ 26 جنوری 2007ء گورنمنٹ سے منظور شدہ ہے۔ اس سے قبل پی اینڈ ٹی کالونی شیٹ نمبر 1,2,3 بذریعہ قرارداد نمبر 300 مورخہ 19نومبر2007ء منظوری حاصل کرچکی ہیں اور وہاں لیزوں کا اجرا کیا جاچکا ہے۔ جبکہ شیٹ نمبر 4 اور شیٹ نمبر 2 اور 3 کا پارٹ نمبر 1پی اینڈ ٹی کالونی کا نقشہ سابقہ کے ایم سی نے تیار کیا ہے یہاں کے مکین قدیم رہائش کے باوجود اب تک لیز کی سہولت سے محروم ہیں۔ پی اینڈ ٹی کالونی محکمہ ٹیلی گراف کے ملازمین پر مشتمل آبادی تھی جو پاکستان کے بننے کے وقت صرف پی اینڈ ٹی کے ملازمین کیلئے قائم کی گئی تھی اور 62 سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ لوگ شہری ضلعی حکومت کراچی کی اس زمین پر محکمہ پی اینڈ ٹی کو اپنی رہائش کا معاوضہ ادا کررہے تھے۔ ریٹائرڈ خاندان بنا کسی ادائیگی کے زمین پر قابض تھے جبکہ زمین کی ملکیت شروع سے ہی محکمہ شہری ضلعی حکومت کراچی (سابقہ بلدیہ) کی تھی جبکہ محکمہ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف نے اس زمین کے حصول کے سلسلے میں پیش رفت کی تھی۔ لیکن بوجہ عدم ادائیگی یہ زمین حاصل نہ کرسکی۔
ذرائع نے بتایا کہ 2017ء میں پی اینڈ کالونی میں ہوئی کرپشن اور سرکاری اراضی پر قبضے سے متعلق شور مچا تو محکمہ انسداد رشوت ستانی نے حرکت میں آکر تحقیقات کا آغاز کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ متحدہ دہشت گردوں کی آبادکاری کیلئے جعلی لیز کی فراہمی اور کے ایم سی کے کرپٹ افسران کے ملوث ہونے سے متعلق ’’امت‘‘ میں شائع ہونے والی خبروں پر صوبائی انسداد رشوت ستانی نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات شروع کی تھی۔ اس حوالے سے اینٹی کرپشن اینڈ اسٹیبلشمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ضمیر عباسی کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا جو کے ایم سی کے 8 ڈائریکٹرز و ڈپٹی ڈائریکٹرز کے خلاف شواہد جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ تحقیقات شروع ہوئیں تو پتا چلا کہ مذکورہ افسران 2007ء سے 2016ء کے دوران پی اینڈ ٹی کالونی میں پہلے قبضہ اور پھر لیز دینے میں ملوث ہیں۔ ان افسران میں سابق ڈائریکٹر کچی آبادی مظہر خان، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کچی آبادی سرفراز مطلوب، سابق ڈائریکٹر ادیب عالم، سابق ڈائریکٹر کچی آبادی ریحان خان، غضنفر عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر شفیق خان، نصرت خان اور عارف قاضی شامل تھے۔ ذرائع نے بتا یا کہ مذکورہ افسران پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے پہلے غیر قانونی طریقے سے لیز دی اور پھر وہاں قبضہ کروایا اور بعد میں بلڈر مافیا سے کروڑوں روپے بھی بٹورے۔ معلوم ہوا کہ اینٹی کرپشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے سینئر ڈائریکٹر کچی آبادی، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بھی تحقیقات میں معاونت کیلئے مکتوب لکھے۔ مکتوب میں سرکاری دستاویزات میں جعلسازی، غیر قانونی طریقے سے لیز اور غیر قانونی تعمیرات سے پہنچنے والے نقصان کا ذکر بھی کیا گیا۔ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا کہ مجاز اتھارٹی کو شکایت موصول ہونے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جس میں یہ سراغ بھی لگانا ہے کہ پی اینڈ ٹی کالونی میں لیز کن افراد کو اور کن کے احکامات پر دی گئی۔ مکتوب میں کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے درمیان 40 دکانوں کے تناذعہ کا بھی ذکر ہے جو کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے لیز پر دے دی ہیں۔ مکتوب میں تینوں اداروں کے سربراہان سے معاونت کے ساتھ ساتھ تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن کی سفارش بھی کی گئی تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے۔ ذرائع نے بتا یا کہ اینٹی کرپشن مذکورہ تحقیقات میں اس حوالے سے بھی روشنی ڈالنا تھی کہ کے ایم سی انتظامیہ یا میئر کراچی نے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے متصل پی اینڈ ٹی کالونی سے تقریباً 5 ارب روپے مالیت کی اراضی واگزار کیوں نہ کرائی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں بھی تحقیقات ہونا تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور میئر کراچی وسیم اختر نے مصطفی کمال گروپ میں شامل جرائم پیشہ افراد کے قبضے سے صرف شیٹ نمبر 3 کی تقریباً 2 ایکڑ اراضی واگزارکیوں کرائی، جبکہ شیٹ نمبر 1 اور 2 میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اہم ترین افراد کو غیر قانونی طور پر لیز کن افسران کے دستخط سے دی گئی، انکروچمنٹ آپریشن کے حوالے سے کن افسران نے رکاوٹ ڈالی۔ تاہم کچھ ماہ تک انکوائری چلنے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر انکوائری ختم کردی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اراضیاں سرکاری ملکیت ہیں اور ان پر کی جانے والی تعمیرات تجاوزات کے زمرے میں آتی ہیں جن پر کارروائی کرنا میئر کراچی اور ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
٭٭٭٭٭