اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) عین اس وقت جب وزیراعظم عمران خان کرتارپور میں بھارت کو دوستی، پیار اور امن کے سندیسے دے رہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک ہفتے میں 18 نوجوان شہید ہو چکے تھے اور ان شہدا کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا تھا۔ ان میں سے کسی کی عمر 30 برس سے زائد نہ تھی اور انہوں نے پاکستان سے محبت کی خاطر اپنی جان دی تھی۔ عین اس وقت جب پاکستانی وزیراعظم بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے لیے کائنات کے ہر گوشے سے مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لارہے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کے خلاف ایک کڑوا اور کڑا بیان جاری کیا، جس میں خشمگیں ڈانٹ کا عنصر نمایاں تھا۔ اور عین اس وقت جب عمران خان نوجوت سنگھ سدھو کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ اسی نوجوت سنگھ کے بھائی بھارتی فوجی وردی میں ملبوس پاکستان کی سمت بندوق تانے کھڑے تھے۔ کرتار پور کوریڈور کھولنے کے لیے یہ وقت مناسب تھا یا نہیں۔ اس کی افتتاحی تقریب میں عمران خان کا خطاب سب سے زیادہ ناموزوں تھا۔ آدھے پونے گھنٹے کی گھن گرج میں انہوں نے صرف ایک بار کشمیر کا ذکر کیا۔ وہ بھی بڑے ملائم انداز میں کترا کے نکلنے والا۔ ان کا اصرار تھا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت بات چیت کے ذریعے بیٹھ کر حل کرے۔ یعنی وہ بات کی جو بھارت کے حق میں جاتی ہے اور وہ بات جس نے شملہ معاہدے میں شامل ہو کر ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے ہیں۔ اس شملہ معاہدے کے مطابق کشمیر کا مسئلہ کسی بین الاقوامی فورم پر طے کرنے کے بجائے دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر طے کریں گے۔ شملہ معاہدے کی اس شق نے پاکستان سے وہ حق چھین لیا، جس کے تحت وہ کشمیر ایشو کو اقوام متحدہ کے مرکزی اور ذیلی اداروں میں اٹھانے کا حق رکھتا تھا یا کشمیری تحریک کے حق میں ڈور ٹو ڈور عالمی مہم چلا سکتا تھا۔ اب آپ کسی بھی ملک وفد بھیجیں اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی درخواست کریں۔ جواب یہی ملتا ہے کہ آپ نے خود شملہ معاہدے میں مقامی طور پر بات کر کے مسئلہ حل کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اب ہماری آواز اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بھارت نے آپس میں بیٹھ کر بات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اب پاکستان کیا کرے؟۔ وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ اتنے نادر موقع سے فائدہ اٹھا کر کشمیریوں پر ظلم و ستم کا تفصیلی تذکرہ کرتے۔ اور دنیا کے تمام سکھوں سے اپیل کرتے کہ وہ چاہے جس مقام پر ہوں، سیاست میں ہوں، فوج میں ہوں، کاروبار میں ہوں یا کھیتی باڑی کرتے ہوں۔ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ کشمیر کو قتل گاہ نہ بنائے۔ انہیں چاہئے تھا کہ اس تقریب میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کو ضرور مدعو کرتے۔ انہیں مہمان خصوصی کا درجہ دیتے اور فیتہ کاٹنے میں شریک کرتے اور انہیں مہمان سکھوں کے ساتھ کھڑا کرتے۔ یہ سرحد پار کشمیریوں کے لیے پیغام ہوتا کہ ہم تم کو نہیں بھولے۔ یہ بھارت کے لیے بھی پیغام ہوتا کہ کشمیر کو قتل گاہ بناؤ گے تو بھارتی پنجاب بھی کشمیر بن سکتا ہے، مگر افسوس کہ انہوں نے اتنی دور تک نہیں سوچا۔ آکے بھاشن دیا اور چل دیئے۔ شاید اس لیے بھی کہ وزیراعظم کشمیر کا تعلق نواز لیگ سے تھا۔ قومی مفاد پر ساری پارٹیوں کو جمع ہونے کے لیکچر دینے والے نے قومی مفاد میں راجہ فاروق حیدر کو بلانے سے انکار کر دیا۔ ایک کرکٹر سے آپ دانش مندی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔؟ بھارتی سکھوں کو لبھانے کے لیے کرتارپور کوریڈور کھولنا بظاہر بہت اچھی بات ہے، لیکن آنے والے وقتوں میں بڑا دردسر بن سکتا ہے۔ تب اسے سنبھالنا حکومتوں کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں آنے والے سکھوں کا تعین بھارتی حکومت کرے گی۔ پاکستانی حکومت نہیں۔ بھارتی حکومت طے کرے گی کہ کون آئے گا اور کون نہیں اور آنے والوں میں نصف سے زائد بھارتی ایجنٹ ہوں گے یا ان سے رابطے میں ہوں گے۔ دوسری بات ایک بار آپ کے بھارتی سکھوں کو مذہبی بنیاد پر بغیر ویزہ آنے کی اجازت دے دی۔ تو آنے والے وقتوں میں کرتارپور پر ان کی ملکیت کے دعوے کے لیے بھی تیار ہو جایئے۔ بھارتی ادارے اس کوریڈور کو ٹھنڈے پیٹ سے برداشت نہیں کریں گے۔ وہ سکھوں کو اکسائیں گے کہ بابا گرونانک کی اس قیام گاہ کو سکھوں کی قومی ملکیت میں دینے کا مطالبہ کرا دیں۔ یہ ایک بڑی ترغیب ہو سکتی ہے۔ سکھوں کے خواب کی تعبیر۔ گرونانک کی قیام گاہ پر سکھ کمیونٹی کی ملکیت کا مطالبہ ساری دنیا میں موجود سکھوں کے دباؤ کا رخ پاکستان کی طرف کر دے گا۔ پھر یہ گٹھلی اگلی جائے گی، نہ نگلی جائے گی۔ چلیں ابتدا میں یہ نہ بھی ہو۔ لیکن اس جگہ کا انتظام سکھوں کی قومی کمیٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ تو آہی سکتا ہے۔ وہ کمیٹی جو گولڈن ٹمپل کا انتظام سنبھالتی ہے یا جو عالمی سکھ تنظیم کے ذمہ داران پر مشتمل ہو۔ آخر ہم بیت المقدس کا انتظام بھی تو عالمی نگرانی میں دینے کا مطالبہ سنتے رہتے ہیں۔ اگر تو ہمارا یہ خیال ہے کہ اس اقدام سے ہم بھارتی سکھوں کی ہمدردی حاصل کر لیں گے اور بھارت اسے آرام سے برداشت کر لے گا تو یہ ہماری بھول ہے۔ وہ ہماری چال ہم پر الٹنے کے لیے سو راستے اختیار کرے گا اور ان میں سب سے آسان راستہ یہی ہے کہ کرتارپور میں بابانانک کے متبرک مقامات کو سکھوں کے قبضے میں دلانے کی مہم شروع کرا دے۔ خدانخواستہ اگر یہ مہم شروع ہو گئی تو وہی سکھ جو آج پاکستان کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ ہم سے گلے شکوے شروع کر دیں گے۔ دوسری بات۔ کرتارپور سرحد پر کسی سرحدی تصادم کی صورت میں باباگرونانک کے متبرک مقامات پر قبضہ کرنے کی کوشش میں سکھ فوجیوں کی کئی رجمنٹیں تعینات کر دی گئیں تو وہ اس کے لیے جان لڑا دیں گی اور پھر قبضہ ہو نہ ہو۔ پاکستان اور سکھوں کے درمیان نفرت کی ایک دیوار بہرحال کھڑی ہو جائے گی۔ جو بڑی مشکل سے گرائی گئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مذہب کے نام پر ہر قوم دیوانی ہوتی ہے۔ پھر وہ کسی دنیاوی قانون یا بین الاقوامی سرحد کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اور سکھ اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ایک بار وہ کرتارپور آنا جانا شروع کر دیں۔ تو اپنے متبرک مقام کو سرحد کے اتنے قریب دیکھ کر لامحالہ ان کے دل میں یہ خواہش جاگے گی کہ کاش یہ علاقہ انہی کے قبضے میں ہوتا، تاکہ وہ اپنے مذہبی جوش و خروش سے اسے سجاتے۔ بناتے اور عبادت گاہ بناتے۔ اس خواہش کو صرف تیلی لگانے کی دیر ہے۔ باقی کام سکھ خود کر لیں گے۔