واشنگٹن(امت نیوز)امریکہ نے آئندہ برس اپریل تک طالبان سے معاہدے کیلئے بیتابی ظاہر کردی- امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان کو صدارتی انتخاب میں شمولیت پر آمادہ کرینگے۔امریکی فوج کا جلدانخلا چاہتے ہیں۔حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال نہ ہونے کی ضمانت لی جائے گی۔تشدد کے خاتمے کیلئے متحارب فریقوں کو مل کربیٹھنا ہوگا۔افغانستان میں امن کیلئے پاکستان بھی تعاون پرتیار ہے۔ جبکہ امریکی ٹی وی پی بی ایس کا کہنا ہے کہ17سال میں کھربوں ڈالرخرچ کرنے کے باوجود امریکہ افغان جنگ نہیں جیت سکا۔طالبان کے حملے جاری ہیں۔ اس صورتحال میں واشنگٹن کئی ماہ سے مفاہمت کی کوششیں کر رہا ہے۔دوسری جانب طالبان نے حکومت سے مذاکرات کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے صدر اشرف غنی کی کمیٹی کو مسترد کردیا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کمزور فریق فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ہماری لڑائی امریکہ سے ہے اوراسی کے ساتھ بات کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں یورپی یونین نے افغانستان کی بحالی کیلئے535 ملین ڈالر امداد کی منظوری دیدی۔تفصیلات کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے امریکی ٹی وی پی بی ایس کو انٹرویو میں کہا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی سمیت ہر کوئی افغانستان میں جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ حکومت اور طالبان آئندہ برس اپریل میں صدارتی الیکشن کی تاریخ کو امن معاہدے کی ڈیڈ لائن کے طور پر استعمال کرینگے۔ تمام متحارب فریقوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔انہوں نے کہا امریکہ افغانستان سے اپنی فوج کا جلد انخلا چاہتا ہے تاہم17 سال کی کوششوں کو ضائع نہیں کیا جائے گا اور اس بات کی ضمانت لی جائے گی کہ افغان سرزمین امریکہ کیخلاف حملوں کیلئے استعمال نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ افغان صدارتی الیکشن سے قبل طالبان سے معاہدہ ہوجائے،انہیں انتخاب میں شمولیت پر آمادہ کیا جائے گا۔ اس سے امن آئے گا۔امریکہ افغان المیے کا جلد خاتمہ چاہتا ہے۔ افغانستان کے عوام 40 سال سے حالت جنگ میں ہیں۔زلمے خلیل زاد نے کہا یہ امریکہ کی ناکامی نہیں ہم سیاسی مفاہمت چاہتے ہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔افغانستان کے عوام خود مختار ہیں۔ قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ افغان ایک دوسرے کو قبول کریں اور اتفاقِ رائے سے امن کے حصول کی راہ کا تعین کریں۔زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان بھی تعاون کے لئے تیار ہے۔امریکی ٹی وی کے مطابق 17سال میں کھربوں ڈالرخرچ کرنے کے باوجود امریکہ افغان جنگ نہیں جیت سکا۔طالبان کے حملے جاری ہیں۔ اس صورتحال میں واشنگٹن کئی ماہ سے مفاہمت کی کوششیں کر رہا ہے۔دریں اثناطالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ طاقت سے محروم اور غیر ملکیوں کے مسلط کردہ عناصر سے بات کرنا لاحاصل ہے کیوں کہ کمزور فریق فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔بیان میں طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان کی لڑائی امریکی حکومت سے ہے اور وہ اسی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔بدھ کو جنیوا میں افغانستان کانفرنس سے خطاب کے دوران افغان صدر نے طالبان سے مذاکرات کے لیے 12 رکنی اعلیٰ کونسل کے قیام کا اعلان کیا تھا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان صدر نے اس کمیٹی کے قیام کا اعلان بظاہر زلمے خلیل زاد کے دباؤ پر کیا تھا۔ادھر یورپی یونین نے افغانستان کی بحالی کیلئے 535 ملین ڈالر امداد کی منظوری دیدی ہے۔ امدادی پیکیج میں سے 351 ملین ڈالر خدمت عامہ کی اصلاحات، 90 ملین ڈالر صحت اور خوراک کی کمی دور کرنے کے لیے اور 16 ملین ڈالر 2019 میں ہونے والے کونسل اور صدارتی انتخاب کی مد میں خرچ کیے جائیں گے جب کہ 42 ملین ڈالر کا ایک اور معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ یونیسیف افغانستان کے سربراہ ایلسن پارکر نے متنبہ کیا تھا کہ افغانستان میں خوراک کی کمی کے باعث 5 لاکھ بچوں کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔علاوہ ازیں افغان صدر اشرف غنی کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی محمد حنیف اتمرنے آئندہ سال 20 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post