قیصر چوہان
مالی منافع نہ ملنے پر سپر لیگ کے ٹیم مالکان خسارے کا شکار ہیں۔ ابتدائی تین ایڈیشنز میں فرنچائزرز کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جبکہ چوتھے ایڈیشن میں بھی لیگ کے کلیدی سرمایہ کاروں کو منافع کی توقع نہیں ہے۔ پی سی بی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ خالص منافع کیلئے کم از کم پانچ برس انتظار کرنا ہوگا۔ دوسری جانب فیس ادا نہ کرنے پر بورڈ نے بینک گارنٹی کیش کرانے کی دھمکی دے دی ہے۔ جس کے سبب تنازعہ کے شدت اختیار کرنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پی سی بی ہیڈ کوارٹر نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے ابتدائی تین ایڈیشنز میں کوئی بھی فرنچائز ایک دھیلا منافع کمانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ صورتحال میں اگلے چند برسوں میں بہتری نہ آئی تو اس بات کے امکانات ہیں کہ پی ایس ایل فرنچائزز دیوالیہ ہوجائیں۔ تاہم فرنچائز مالکان کو امید ہے کہ چوتھے سال نشریاتی حقوق سے ہونے والی آمدنی کا معقول حصہ فرنچائزر کو ملے گا۔ مالکان یہ بھی امید لگائے ہوئے ہیں کہ حکومت سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں بھی چھوٹ دے گی، جس کے بعد ان کے نقصان میں کچھ کمی ہو سکے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیکس معاملات کیلئے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمرسے مذاکرات کئے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ٹیکس میں اگر چھوٹ مل جاتی ہے تو ان کے نقصان میں کمی آئے گی اور نئے فنانشل ماڈل سے فرنچائز مالکان کے مسائل کم ہوں گے۔ اگر ٹیکس میں چھوٹ نہیں ملتی تو فرنچائزز دیوالیہ ہو سکتی ہیں۔ پی ایس ایل کی تاریخ میں پہلی بار نشریاتی حقوق فروخت کرنے کیلئے ٹینڈر آج طلب کئے جارہے ہیں۔ ابتدائی تین برسوں میں پی سی بی نے مختلف چینلز سے ایئر ٹائم خرید کر ٹورنامنٹ کے میچ دکھائے تھے۔ پی سی بی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ آج نشریاتی حقوق فروخت کرنے کیلئے ٹینڈر کھولے جائیں گے۔ چند ماہ قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک بڑی اسپورٹس پراپرٹی کمپنی سے سروے کرایا تھا۔ جس کے مطابق تین سال کیلئے نشریاتی حقوق تقریباً 39 ملین ڈالرز میں فروخت ہونے چاہئیں۔ پاکستان کیلئے ٹی وی رائٹس کی ممکنہ قیمت 33 ملین ڈالرز اور بیرون ملک 6 ملین ڈالرز میں فروخت ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی سی بی نے ابتدائی تین سال آمدنی کی رقم سینٹرل پول میں رکھی، جس میں سے اخراجات نکال کر آمدنی کا حصہ ٹیموں میں تقسیم کیا گیا۔ اس سال ٹیموں کو تقریباً 11 لاکھ ڈالرز شیئر ملا ہے۔ جبکہ ٹیموں نے اپنے طور پر اسپانسر شپ اور دیگر ذرائع سے بھی رقم کمائی ہے۔ لیکن ان کے نقصان کا تخمینہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ چونکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں، اس لیے ٹورنامنٹ کے موجودہ ماڈل میں ٹیکس کی مد میں 26 فیصد ادائیگی سے فرنچائزرز کا نقصان بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا خیال ہے کہ انڈین پریمیئر لیگ کی طرح 10 سال بعد فرنچائز مالکان کو منافع آنا شروع ہوجائے گا۔ اس وقت بورڈ نے فرنچائزرز سے 10 سال کیلئے معاہدے کر رکھے ہیں۔ دس سال بعد مارکیٹ ویلیو دیکھ کر ان کے ساتھ نئے معاہدے کئے جائیں گے۔ اس لیے فرنچائزوں کیلئے دس سال بعد بھی صورت حال آسان نہیں ہوگی۔ پی سی بی نے حال ہی میں ایک بینک کو تین سال کیلئے ٹائٹل اسپانسر شپ 14 اعشاریہ تین ملین ڈالرز میں فروخت کیے ہیں۔ یہ رقم پہلی ڈیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح نئے چیئرمین احسان مانی کو امید ہے کہ ٹی وی رائٹس سے پی سی بی کواچھی ڈیل ملے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2015ء میں پاکستان سپر لیگ شروع کرتے وقت پانچ فرنچائزز سے دس سال کیلئے 93 ملین ڈالرز کا معاہدہ کیا تھا۔ دوسری جانب پی سی بی نے تمام فرنچائزز کو دھمکی دی ہے کہ اگر پیر کو دوپہر 2 بجے تک فیس کی ادائیگی نہ کی گئی تو بینک گارنٹی کیش کرا لی جائے گی۔ پی سی بی نے 14 نومبر کو انوائس جاری کرتے ہوئے فیس کی فوری ادائیگی کا کہا تھا۔ تاہم اب تک کسی بھی فرنچائز نے ایسا نہیں کیا ہے۔ منگل کی صبح صورت حال میں ڈرامائی موڑ آیا، جب پی سی بی کے چیف فنانشل آفیسر بدر منظور کی ایک ای میل تمام فرنچائزز کو موصول ہوئی۔ اس میں انہوں نے دھمکی آمیز انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ اگر پیر 3 دسمبر کی دوپہر 2 بجے تک تک فیس کی ادائیگی نہ کی تو بینک گارنٹی کیش کرالی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک فرنچائز نے تو گارنٹی جمع ہی نہیں کرائی۔ بلکہ فیس کا کچھ حصہ بورڈ کو دیا ہے۔ ذرائع کے بقول چند فرنچائز نے پی سی بی سے کہا ہے کہ وہ بینک گارنٹی واپس کرے۔ اسی صورت میں وہ فیس کی ادائیگی کر سکیں گے۔ ان کیلئے ایک ساتھ اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک فرنچائز نے تو گزشتہ دنوں گورننگ کونسل میٹنگ میں ہی چیئرمین احسان مانی سے یہ بات کہہ دی تھی۔ اب بعض دیگر نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔ البتہ پی سی بی حکام یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس صورت میں فرنچائزز فیس کی ادائیگی میں مزید ٹال مٹول سے کام لیں گی۔ ادھر ہمیشہ سب سے پہلے ادائیگی کرنے والی ایک فرنچائز نے اس بار بورڈ سے کہا کہ جب دیگر ٹیمیں فیس بھر دیں تو انہیں بتائیں، وہ بھی ایسا کرلیں گے۔ واضح رہے کہ طریقہ کار کے تحت فرنچائزز نے فیس ادا نہ کی تو بورڈ کو قانونی نوٹس جاری کرنے کے بعد ہی بینک گارنٹی کیش کرانے کا اختیار حاصل ہے۔ دوسرے ایڈیشن میں ایک فرنچائز کے ساتھ ایسا ہو بھی چکا ہے۔ چند روز قبل عدم ادائیگی پر پی سی بی نے ملتان سلطانز کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا اور اب نئی بڈنگ ہوگی۔ یاد رہے کہ 2015ء میں بورڈ نے 5 پی ایس ایل فرنچائزز کو 93 ملین ڈالر کے عوض 10 برس کیلئے فروخت کیا تھا۔ سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز26 ملین اور لاہور قلندرز 25 ملین میں فروخت ہوئی۔ پشاور زلمی 16 ملین، اسلام آباد یونائٹیڈ 15 ملین اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز11 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ دوسری جانب پی سی بی کے رویّے پر فرنچائزز چراغ پا ہیں۔ ان کے مطابق ایک طرف ٹیکس میں چھوٹ دلانے کیلئے ان کے ساتھ مل کر اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے وہ جلد مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گی۔ ٭
٭٭٭٭٭