عظمت علی رحمانی
سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو قادیانیوں میں انتہائی مقبول ہے۔ واضح رہے کہ کرتار پور باڈر کھولنے کے بعد نوجوت سنگھ سدھو کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ قادیانیوں کے مرکز قادیان میں سالانہ تقریب سے خطاب میں ملعون مرزا غلام قادیانی کی تعریف کر رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستان بھر میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ سدھو کا حالیہ دنوں میں دو مرتبہ پاکستان آنا اور پی ٹی آئی حکومت کا مہمان بننا اور شان دار پزیرائی، کیا اس کی قادیانیوں سے قربت کی وجہ سے ہے؟
اس حوالے سے سینیئر صحافی عارف نظامی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’نوجوت سنگھ سدھو ایک انٹرٹینر ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس کا کوئی نظریہ ہوگا۔ اس بات میں بھی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد قادیانیوں کو شہ ملی ہے۔ دیکھیں، جس طرح عاطف میاں کا کیس سامنے آیا تو کہا گیا کہ ریاست مدینہ میں قادیانیوں کی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ عارف نظامی کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں نے ویڈیو دیکھی ہے جس میں نوجوت سنگھ سدھو قادیانیوں کی ایک تقریب میں مرزا غلام قادیانی کی تعریف کر رہے ہیں۔ کرتار پور راہداری شروع کرنا مستحن اقدام ہے، مگر ہماری قومی پالیسی اور قومی تشخص کو کسی بھی طور مجروح نہیں کیا جاسکتا۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ قادیان یا دہلی سے کوئی بھی آئے گا تو اس کو آنے دیا جائے گا۔ ظاہر ہے سب کچھ ایک پراسس کے ذریعے ہو گا‘‘۔
واضح رہے کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح کے بعد جہاں بھارت میں سدھو پر تنقید ہوئی، وہیں پاکستان میں بھی سدھو کی ایک ویڈیو پر تنقید کی جارہی ہے جس میں نوجوت سنگھ سدھو تقریر کرتے ہوئے ملعون مرزا غلام قادیانی کو امن و محبت کا داعی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ قادیانی جماعت کا دنیا میں وجود گلاب کے پھولوں کی مانند ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے عوامی اور مذہبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اکثر عوامی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ کرتارپور بارڈر سے نزدیک ہی مرزائیوں کے ہیڈ کوارٹر ’’قادیان‘‘ بھی ہے جس کی وجہ سے کرتارپور بارڈر کا فائدہ سکھوں سے زیادہ قادیانیوں کو ہوگا۔ کرتارپور بارڈر کے ساتھ بھارتی پنجاب میں ضلع گورداسپور ہے جس قادیان بھی ہے، کرتار پور کوریڈور سے آیا جائے تو قادیان سے پاکستان تک کا سفر محض 45 کلومیٹر رہ جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کو خدشہ ہے کہ سال میں دو بار انڈیا کے شہر قادیان میں ہونے والے قادیانیوں کے اجتماع میں اس کوریڈرو کے ذریعے پاکستانی قادیانی بھی وہاں با آسانی جا سکیں گے۔ بعض دینی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر سکھوں کیلئے ویزہ فری پالیسی دی گئی، تو بدلے میں بھارت کی جانب سے یہ ڈیمانڈ کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی قادیانیوں کو قادیان میں ہونے والے اجتماع کے موقع پر فری ویزا کی سہولت دی جائے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ 7 ستمبر 1974ء کو ختم نبوت بل اسمبلی میں پاس ہوا اور قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا اور 7ستمبر ہی کو کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ کیا یہ اتفاق ہے یا اس کے پیچھے بھی کوئی راز ہے؟
عالمی مجلس تحفط ختم نبوت خیبر پختون کے رہنما مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’اس حکومت کے آنے سے پہلے اور بعد میں قادیانیوں کو ملنے والی رعایتیں دیکھی جائیں تو کبھی کوئی قادیانی اقتصاری کونسل میں نظر آتا ہے اور ایک بحث چھڑ جاتی ہے کبھی کوئی قادیانی کسی یونیورسٹی میں آتا ہے تو بحث شروع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی باتیں ایسی نظر آتی ہیں جن کو اتفاقات نہیں کہہ سکتے۔ اگر یہ باڈر کھولنا ہے تو اس کیلئے ’’کوریڈور‘‘ لفظ لایا گیا تاکہ چین و پاکستان راہدراری سے اس کو مماثلت دی جاسکے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، بھارت دشمن ملک ہے اور قادیانیوں کا مرکز بھارت میں ہے۔ ایسے مرکز کے قریب ایک باڈر کھولنا اور سدھو جیسے لوگوں کا اس پر خوش ہونا، خطرے سے خالی نہیں ہے۔ سدھو جیسے لوگوں سے محتاط رہنا چاہئے۔‘‘
انٹرنیشنل ختم نبوت خیبرپختون کے امیر محمد اختر شکیل اختر کا کہنا تھا کہ ’’حیرت کی بات ہے کہ سدھو جیسے شخص کو ہر پاکستانی نیوز چینل اتنی پزیرائی دے رہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے سو دنوں میں قادیانی لابی متحرک نظر آتی ہے۔ کئی معاملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سو روزہ کارکردگی ہمیں نہیں، کسی اور کو دکھائی گئی ہے۔ سکھوں میں دیگر بھی بے شمار لوگ ہیں، ان سے بھی بات ہو سکتی ہے، لیکن قادیانیوں کے قریب رہنے والے سدھو سے ہی پیار کی پینگیں کیوں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم سمیت ہر مسلمان کو اس پر تشویش ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭