’’روکا گیا ریلوے پراجیکٹ چین کا قرضہ اتار سکتا تھا‘‘

0

نجم الحسن عارف
تیس ستمبر کو گیارہ سو ارب روپے کا اہم منصوبہ آناً فاناً روک دیا گیا۔ سی پیک پروجیکٹ میں کراچی سے پشاور تک ریل کی مین لائن کی اپ گریڈیشن سے اب تک کم از کم دس ہزار پاکستانیوں کو روزگار مل چکا ہوتا۔ منصوبے سے 1872 کلو میٹر کا ٹریک اپ گریڈ کیا جاتا۔ 2700 ریل کے پلوں کی تعمیر و مرمت ہونا تھی اور پاکستان دس برسوں میں چین کا قرضہ واپس لوٹا سکتا تھا۔ یہ منصوبہ حکومت نے کیوں روک دیا؟ اس حوالے سے منصوبے میں پاکستانی ٹیم کے سابق سربراہ اشفاق خٹک سے ’’امت‘‘ کی خصوصی گفتگو نذر قارئین ہے۔
س: اشفاق خٹک صاحب! آپ تقریباً تین برس تک سی پیک کے ریلوے سے متعلق اہم ترین منصوبے میں پاکستان کی طرف سے ٹیم لیڈر رہے۔ آپ اس منصب پر کیسے فائز ہوئے۔ یہ منصوبہ کیا تھا، جسے اب آپ کے الفاظ میں آناً فاناً پاکستان کی طرف سے عملاً معطل کر دیا گیا ہے؟
ج: یہ منصوبہ آٹھ اعشاریہ دو ارب ڈالر کی خطیر رقم کا منصوبہ ہے۔ ریلوے نے اس سے پہلے اتنا بڑا منصوبہ نہیں کیا تھا۔ اس لئے ریلوے اور دوسرے متعلقہ شعبوں میں وسیع تجربہ رکھنے والے سینئر حکام پر ایک خصوصی ٹیم بنانے کا حکومت پاکستان اور ریلوے نے فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جو اشتہار دیا گیا، اس میں ریٹائرڈ افراد کو سامنے آنے کے لئے کہا گیا تھا۔ میں نے اس کے لیے باضابطہ درخواست دی اور اپنا تجربہ بتایا اور ایک باضابطہ پراسس کے بعد ریلوے کے اس خصوصی شعبے کے لئے خدمات حاصل کی گئیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے منیجمنٹ پوزیشنI، ایم پی II اور ایم پی III کے تحت افراد کو ہائر کیا۔ اس ہائر کی گئی ٹیم کا کام بنیادی طور پر اس اہم دو ملکی منصوبے پر عملدرآمد کو ممکن بنانا تھا اور اپنی مہارت اور تجربے کو کام میں لانا تھا۔ میں یہ واضح کردوں کہ یہ منصوبہ صرف پاکستان ریلوے یا پاکستان کا نہیں تھا۔ بلکہ یہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس پر عمل کرنا اسے آگے بڑھانا دونوں ملکوں کی حکومتوں کی ترجیح تھی۔
س: کیا اس منصوبے کو آپ نے اور آپ کی ٹیم نے پاکستان کی طرف سے شروع کیا، یا پہلے سے اس پر کام ہو رہا تھا؟
ج: نہیں۔ جب میں نے اور میری ٹیم نے اس ذمہ داری کو سنبھالا، اس پر تقریباً دس ماہ پہلے سے کام شروع ہو چکا تھا۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فزیبلٹی پر دس ماہ تک کا کام ہوگیا تھا۔ ہمارے آنے پر اسے کلوز کیا گیا۔ اور ایک جوائنٹ فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری کی گئی۔ اس کے بہت سے پہلو تھے۔ خصوصاً تکنیکی اور مالی معاملات بھی تھے۔ اس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہ آٹھ اعشاریہ دو ارب ڈالر کی خطیر رقم کا منصوبہ ہے۔ یہ رقم گیارہ سو ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ پاکستان کا مجموعی ترقیاتی بجٹ سالانہ سات سو ارب روپے کا ہے۔ یوں یہ منصوبہ ہمارے مجموعی ترقیاتی بجٹ سے بڑا اکیلا منصوبہ ہے۔ سی پیک کے گیم چینجر میں پاکستان اور چین کے درمیان یہ واحد اسٹرٹیجک منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ مجموعی طور پر 1872 کلو میٹر کے ریلوے ٹریک سے متعلق ہے۔ اس اسٹرٹیجک منصوبے کے تحت ایک طرف کراچی سے پشاور تک حصہ ہے۔ دوسرا حصہ ٹیکسلا سے حویلیاں تک کا ہے۔
س: اس منصوبے کے تحت کیا کیا کئے جانے کی اسکیم ہے؟ کیا سارا ریل ٹریک ہی تبدیل کر دیا جائے گا۔ پہلے والے ٹریک کو اپ گریڈ کیا جائے گا؟
ج: یہ منصوبہ کلی طور پر نیا نہیں، بلکہ عملاً اپ گریڈیشن کا اور توسیع کا منصوبہ ہے۔ لیکن اس میں بہت ساری نئی چیزیں بھی شامل کی جائیں گی۔ ریل ٹریک زمینی اعتبار سے کہہ لیں یا ریل روٹ کے حوالے سے تو وہی رہے گا، لیکن اس کے اوپر بچھے ٹریک کو بہرحال تبدیل کیا جائے گا۔ اور آئندہ کی ضرورتوں کے مطابق بنایا جائے گا۔ ہمارے ٹریک پر اس وقت 65 کلو میٹر فی گھنٹہ سے 110 کلو میٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے ٹرین چلتی ہے۔ اپ گریڈیشن کے بعد اس پر ٹرین کی رفتار 160 کلو میٹر تک ممکن بنائی جائے گی۔ اس ریل ٹریک پر مجموعی طور پر 2700 چھوٹے بڑے پلوں کی تعمیر و مرمت اور اپ گریڈیشن کی جائے گی۔ کراچی سے پشاور کے درمیان جب ریل رفتار میں اضافہ کیا جائے گا تو لازمی ضرورت ہوگی کہ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ اس مقصد کے لئے 450 ریلوے پھاٹکوں کو ختم کر کے ایسے انٹر چینج بنائے جائیں گے، جن کی وجہ سے ریل کا سفر اپنی پوری رفتار کے ساتھ جاری رہ سکے گا۔ اور دوسری ٹرانسپورٹ بھی رواں دواں رہے گی۔
س: کیا اس عظیم منصوبے کے تحت پاکستان ریلوے کی موجودہ ٹرینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا، اور کیا آمدنی بھی بڑھ سکے گی۔ کیونکہ اطلاعات یہ ہیں کہ آپ کی ٹیم نے ریل حکام کو یہ بھی رپورٹ کیا تھا، کہ دس برسوں کے دوران ہی پاکستان ریلوے اتنا کما سکے گا کہ چینی نرم قرضے کی واپسی ممکن بنالی جائے گی؟
ج: جی ہاں یہ بھی درست ہے کہ ہماری ٹیم نے بریفنگ میں کہا تھا کہ دس سال میں ہی چین کے نرم قرضے کی واپسی کے قابل ہوجائے گے۔ جبکہ اس کے بعد ہونے والی آمدنی سے ہم اپنے ریلوے کو مزید بہتر بنا سکیں گے۔ یہ صرف ہماری ٹیم کی فائنڈنگ نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے چینی دوست بھی اس بارے میں پوری طرح واضح ہیں کہ یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہے۔ اس لئے اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد ایم ایل ون پر چلنے والی روزانہ 32 ٹرینوں کے مقابلے میں ٹریک کے ایک جانب روزانہ 171 ٹرینیں چل سکیں گی۔ ہر آٹھ منٹ کے بعد ایک ٹرین روانہ ہو سکے گی۔ ان ٹرینوں میں پچاس فیصد سے زائد ٹرینیں بار برداری کے لئے مختص ہوں گی۔ جبکہ باقی ٹرینیں مسافر ٹرینیں ہوں گی۔ ایم ایل ون پر آج کل سالانہ پاکستان ریلوے پانچ سے چھ ملین ٹن کی بار برداری کر رہا ہے۔ جبکہ 2025ء تک یہ حجم 35 ملین ٹن تک ممکن بنا لیا جائے گا۔
س: اس مقصد کے لئے تو پاکستان کو نئے ریل انجنوں، فریٹ ٹرینوں اور مسافر ٹرینوں کے لئے نئی بوگیوں بھی ضرورت ہوگی۔
ج: اس منصوبے کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہمیں فریٹ ٹرینوں سے کہیں زیادہ آمدنی ہوگی۔ لیکن اس مقصد کے لئے نئے انجنوں کی ضرورت پڑے گی نہ نئی فریٹ ویگنوں کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ ہم پہلے سے موجود فریٹ ٹرینوں کو ہی بروئے کار لانے کا پلان کر رہے تھے۔ یوں مزید کچھ خرچ کئے، پچاس فیصد آمدنی ممکن بنانے کا منصوبہ بنایا۔ 30 فیصد آمدنی مسافر ٹرینوں سے حاصل کرنا چاہتے تھے، جبکہ 20 فیصد دوسرے وسائل سے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
س: کیا مسافر ٹرینوں کے لئے بھی نئے ریل انجنوں اور بوگیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی؟
ج: مسافر ٹرینوں کے لئے مزید 50 ریل انجنوں کی ضرورت ہوگی۔ نیز 300 بوگیوں کی ضرورت پڑے گی۔ امکانی طور پر چین سے ہی انجن لئے جائیں گے۔ اہم بات آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمارے منصوبے میں کراچی اور لاہور کے درمیان سفر 9 گھنٹوں میں ممکن ہو جانا تھا۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان کا سفر تین گھنٹوں میں ریل سے ممکن بنانے کا منصوبہ تھا۔
س: یہ اتنا ہی اچھا منصوبہ ڈیزائن کیا گیا تھا تو پھر اب یہ دو ماہ سے بند کیوں پڑا ہے اور نئی حکومت نے آناً فاناً اس منصوبہ کی خالق ٹیم کو فارغ کیوں کر دیا۔ کیا آپ نے اور آپ کی ٹیم نے نئے وزیر ریلوے کو اس بارے میں پوری طرح بریف نہیں کیا تھا؟
ج: ہمارا کام انہیں بریف کرنا تھا، ہم نے کر دیا تھا۔ لیکن ہر حکومت کی اپنی ترجیح اور اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ پہلے گوادر کو ریل سے مربوط کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا موقف تھا کہ گوادر، کوئٹہ اور سبی کو ملانے کا منصوبہ آخری مرحلے میں ہوگا۔ لیکن ان کی اپنی ترجیحات ہو سکتی ہیں۔ ہم انہیں قائل نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح خنجراب کو حویلیاں سے ملانے کا بھی ان کا کہنا تھا۔ یہ بھی اس منصوبے کے اواخر میں شامل ہونا تھا۔ کیونکہ اپ گریڈیشن پلان میں ابتدائی طور پر انہی چیزوں کو دیکھنا تھا، جہاں پہلے سے ٹریک موجود ہے۔
س: کیا اسی وجہ سے انہوں نے آپ کی ٹیم کو فارغ کر دیا؟
ج: میری ٹیم کے ارکان کو تو 30 ستمبر سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ ان کا کنٹریکٹ جاری نہیں رکھا جائے گا۔ مجھے پہلے نہیں بتایا گیا تھا۔ بلکہ 30 ستمبر کو جب یہ کنٹریکٹ مکمل ہوا تو اسے توسیع نہیں دی گئی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ متبادل ٹیم حاصل کرنے کی بھی کوشش نظر نہیں آئی۔ اس کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ اسے نظرانداز کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ معاملہ صرف پاکستان ریلوے یا حکومت پاکستان سے متعلق نہیں، بلکہ پاکستان اور چین دونوں کے ماہرین اسے مشترکہ طور پر لے کر چل رہے تھے اور یہ دونوں ملکوں کا اسٹرٹیجک منصوبہ ہے۔ چین کی بھی کوشش ہو گی کہ اس میں تعطل پیدا نہ ہو۔ بہرحال یہ اپنی جگہ درست ہے کہ ہر حکومت کی اپنی ترجیحات، پالیسی اور اہداف ہوتے ہیں۔
س: آپ شیخ رشید احمد کو قائل نہیں کر سکے۔ کیا چین کے ماہرین بھی…؟
ج: چین کے دورے سے پہلے تو ان کو قائل نہیں کیا جا سکا تھا، لیکن چین کے دورے کے بعد اب شاید ان کی رائے تبدیل ہو گئی ہے کہ منصوبے کو اسی طرح آگے بڑھنے دیا جائے جس طرح کہ دونوں ملکوں کے ماہرین اس سے پہلے لے کر چل رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ گوادر اور سبی اور کوئٹہ کے درمیان ریل ٹریک کو پہلے مرحلے کی ترجیح نہیں کہیں گے اور خنجراب و حویلیاں ٹریک کو بھی۔ کیونکہ حویلیاں میں تو پہلے مرحلے پر ڈرائی پورٹ کا منصوبہ ابتدائی ڈیزائن کا بھی حصہ ہے۔ پہلے سے ڈیزائن کئے گئے منصوبے کا براہ راست کراچی سے بھی تعلق ہے۔ کراچی بندرگاہ اور حویلیاں ڈرائی پورٹ بھی باہم مربوط ہوں گے۔ چین کی حکومت اور ماہرین بھی اس منصوبے کو قابل عمل سمجھتے ہیں۔ اس لیے شیخ رشید احمد بھی قائل ہو جائیں گے۔ بلکہ میرا خیال ہے قائل ہو چکے ہوں گے۔
س: آپ کی ٹیم کے ڈیزائن میں کچھ اور بھی شامل ہے؟
ج: عملی طور پر ہمارے 150 سالہ پرانے ریل ٹریک کی جو مین لائن ون سے متعلق ہے، اپ گریڈنگ تو شامل ہے ہی کہ اس سے زمین پر موجود اور ٹریک سے متعلق تقریباً ہر چیز تبدیل ہو جائے گی۔ صرف ریل کے گزرنے کے راستے پر نئے سرے سے کسی سروے یا خرچے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اسی طرح 2700 پل اپ گریڈ ہوں گے۔ کئی قریباً نئے بنیں گے، کہ ٹرین کی رفتار جب 160 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی اور گاڑیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی تو پلوں کی مضبوطی بھی ضروری ہو گی۔ اسی طرح اس ریل ٹریک پر سگنلز کے نظام کو عالمی سطح پر موجود جدید ترین نظام سے تبدیل کر دیا جائے گا۔
س: اگر حکومت کی طرف سے یہ بے سوچے سمجھے آناً فاناً ٹیم فارغ نہ ہوتی اور رکاوٹیں نہ پیدا ہوتیں تو آپ کے خیال میں آپ کے تیار کردہ منصوبے پر عمل درآمد کی کیا صورت ہوتی؟
ج: میرے خیال میں 2018ء میں آج اس وقت زمین پر کام شروع ہو چکا ہوتا اور کم از کم دس ہزار پاکستانی اس منصوبے کے باعث روزگار بھی حاصل کر چکے ہوتے۔
س: پاکستانیوں کے لئے مجموعی طور پر روزگار کے حوالے سے تبدیلی میں کیا امکانات رکھے گئے تھے؟
ج: ہماری اور چین کی ٹیموں کے درمیان جو اجلاس ہوتے رہے، ان میں تقریباً یہ طے تھا کہ منصوبے میں مجموعی تعداد کے حوالے سے پاکستانی کارکنوں کی تعداد چینی کارکنوں سے چار گنا زیادہ ہوگی۔ اس حوالے سے آٹھ اور دو کا تناسب طے کیا گیا تھا۔ تکنیکی شعبے میں ہمارے اور چینی کارکنوں کے درمیان تناسب چھ اور چار کا ہونا تھا۔ جبکہ عام کارکنوں اور لیبر کی سطح پر یہ تناسب 9 اور 1 کا طے ہو گیا تھا۔ یوں مجموعی طور پر پہلے مرحلے پر ہی بیس سے بائیس ہزار پاکستانیوں کے لئے روزگار کا امکان پیدا ہو جانا تھا۔ اس کے مقابلے میں چینی کارکنوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہونا تھی۔ سب سے پہلے لاہور اور ملتان کے درمیان 339 کلو میٹر کے ٹریک پر کام ہونا تھا۔ پھر اگلے مرحلے میں لاہور اور راولپنڈی کے درمیان شروع ہونا تھا۔ ممکن تھا کہ یہ کام بھی لاہور، ملتان فیز کے بعد اگلے ہی سال شروع کر دیا جاتا۔
س: ایسا کیا ہوا کہ اتنی اچھی فزیبلٹی کو عملاً روک دیا گیا؟
ج: اس منصوبے کی تیاری میں ہر طرح پاکستان کے مفاد کا خیال رکھا گیا۔ منصوبے کے جلد بروئے کار ہونے اور زیادہ سے زیادہ مفید بنانے پر فوکس کیا گیا۔ پاکستان ریلوے کے پاس چونکہ اتنا بڑا منصوبہ کرنے کا تجربہ نہ تھا، اس لیے شروع میں ہی تھرڈ پارٹی کی خدمات بھی حاصل کرلی گئیں۔ تاکہ چین کی طرف سے جو تجاویز آئیں، انہیں تکنیکی اور مالی حوالے سے پرکھا جا سکے۔ ہماری ٹیم جسے ’’پراجیکٹ ایمپسی منیٹیشن یونٹ‘‘ کہا جاتا ہے، نے بین الاقوامی کنسورشیم کی مشاورتی خدمات حاصل کی تھیں۔ یہ بنیادی طور پر تین عالمی سطح پر مانی ہوئی کمپنیوں کا کنسورشیم ہے۔ ادھر چین کی چار تعمیراتی کمپنیوں کا بھی ایک کنسورشیم بنا ہوا ہے۔ اس منصوبے کی ضروریات کے لئے 4 سیمنٹ فیکٹریاں بھی پاکستان میں لگنا تجویز ہے۔ ہمارے مشترکہ طور پر تیارکردہ منصوبے کو پاکستان اور چین کے صدور بھی دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے اس سے آگے کے مراحل طے کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن 30 ستمبر کے بعد معاملات اچانک رک گئے۔
س: کیا چینی ماہرین کے ساتھ کام کا تجربہ نہ رکھنے والے نئے لوگوں کے لئے فوری طور پر معاملات کو آگے بڑھانا آسان رہے گا؟
ج: دیکھیں، چین کے لوگوں کا اپنا طریقہ کار ہے۔ ہمارا اپنا طریقہ کار ہے۔ ہماری ٹیم نے ایک اچھی انڈر اسٹینڈنگ پیدا کر لی تھی۔ اب یہ تو حکومت کی مرضی ہے کہ وہ کس سے کام لے اور کس سے نہ لے۔ لیکن ایک بات اور بتاتا چلوں۔ چین نے 2017ء میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو اسی وقت معاملات پر پیدا ہونے والی تشویش کے پیش نظر سست روی اختیار کر لی تھی کہ گیارہ سو ارب روپے کے اس بڑے منصوبے کے لئے 85 فیصد رقم چین کی طرف سے آنا تھی، جبکہ صرف 15 فیصد پاکستان نے فراہم کرنا تھی۔ یہ ساری رکاوٹیں پیدا نہ ہوتیں تو منصوبہ اس وقت زمین پر زیرعمل ہوتا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More