بلدیہ ٹائون میں درجنوں ایکڑ پر قائم تجاوزات کارروائی سے محفوظ

0

سید نبیل اختر
بلدیہ ٹائون میں کے ایم سی کی اراضی پر قائم 12 غیر قانونی شادی ہالز کی اینٹی انکروچمنٹ عملے کی سرپرستی میں دوبارہ تعمیرات کی جارہی ہیں۔ یہ شادی ہال 2017ء میں شروع ہونے والے آپریشن میں تجاوزات قرار دے کر جزوی طور پر توڑے گئے تھے، جبکہ 20 لاکھ روپے بھتہ لے کر مزید کارروائی روک دی گئی تھی۔ اب حالیہ آپریشن میں تحفظ فراہم کرنے کیلئے ڈھائی کروڑ روپے رشوت وصول کرکے دوبارہ تعمیرات کی اجازت دی گئی ہے اور آپریشن کیلئے تیار کی گئی فہرست میں سے بھی ان شادی ہالز کا نام نکال دیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر ہال بکنگ پر دستیاب بھی ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق مذکورہ غیر قانونی شادی ہالز سے متصل سیکٹر 8 اور 14 میں بھی چائنا کٹنگ کرکے 2 ہزار پلاٹ کاٹے گئے۔ متحدہ دہشت گردوں نے 100 فٹ روڈ بھی 60 گز کے پلاٹوں کی پٹی میں لے لیا تھا۔ متحدہ کے با اثر رہنماؤں نے غیر قانونی بستی کیلئے کے الیکٹرک اور سوئی گیس سے سہولیات بھی دلائیں۔ حالیہ آپریشن میں آبادی کو بچانے کیلئے رشوت دینے کی خاطر مذکورہ سیکٹرز میں گھر گھر چندہ جمع کیا جارہا ہے۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ کے ایم سی کی 4 ایکڑ اراضی پر قائم 12 سے زائد غیر قانونی شادی ہالز کو ڈھائی کروڑ روپے بھتہ وصولی کے بعد اینٹی انکروچمنٹ عملے نے دوبارہ تعمیرات کی اجازت دے دی ہے جن میں مہک لان، شاہی دربار، پیرزادہ لان، تانیہ لان، وی وی آئی پی لان، جی کے پیرزادہ لان، سونا میرج لان، بابا لان، بینش لان، وی آئی پی بلدیہ لان، علی کیسل اور شانی لان شامل ہیں۔ ذرائع نے بتا یا کہ 2017ء میں ان غیر قانونی شادی ہالز کے خلاف انسداد تجاوزات کی ٹیم نے کارروائی کی جس کے نتیجے میں تمام شادی ہالز کو معمولی مسمار کیا گیا۔ اسی روز کے ایم سی کے ڈائریکٹر کو شادی ہالز کی انتظامیہ نے رابطہ کرکے 20 لاکھ روپے بھتہ ادا کیا تاکہ وہ ان شادی ہالز کو مکمل طور پر مسمار نہ کریں۔ شادی ہالز کی انتظامیہ کو کے ایم سی کے ڈائریکٹر کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ کچھ عرصے تک ہال بند رکھے جائیں تو کے ایم سی کی ٹیم یہاں کا رخ نہیں کرے گی۔ 8 ماہ تک شادی ہال بند رہے، تاہم حالیہ آپریشن میں دوبارہ توڑنے کے حوالے سے ڈائریکٹر بشیر صدیقی نے نوٹس جاری کئے تو گزشتہ آپریشن رکوانے اور کے ایم سی کو 20 لاکھ روپے کی ادائیگی کرانے والے مڈل مین نے ایک بار پھر کے ایم سی کے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے 3 کروڑ روپے مانگے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شادی ہالز مالکان نے ڈھائی کروڑ روپے کی ادائیگی کی یقین دہانی کراکر تجاوزات کی فہرست سے ان تمام شادی ہالز کے نام نکلوا دیئے ہیں۔ ذرائع نے بتا یا کہ شادی ہالز مالکان نے 70 فیصد ادائیگی کردی ہے جبکہ بقیہ رقم کیلئے سیکٹر 8 اور 4 کے مکینوں سے چندہ جمع کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مصطفی کمال کے دور نظامت میں بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 ایف میں کے ایم سی افسران کی ملی بھگت سے غیر قانونی شادی ہالز کی سیریز قائم کی گئی تھی۔ مذکورہ ایس ٹی نمبر ون ایمنیٹی پلاٹ کیلئے مختص تھی۔ اراضی پر ما سٹر پلان کے مطابق چلڈرن پارک تعمیر تھا۔ مذکورہ اراضی 4 ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل ہے جس پر قبضہ کر کے 10سے زائد شادی ہال تعمیر کئے گئے تھے۔ ذرائع نے بتا یا کہ 2017ء میں معمولی کارروائی کے بعد ڈھائی کروڑ روپے میں ہونے والی ڈیل کے بعد ان شادی ہالز مالکان نے دھڑلے سے شادی ہالز کی مرمت اور تعمیر کا کام تیز کردیا ہے۔ بیشتر کی تعمیرات مکمل کرلی گئی ہیں اور ان پر بکنگ بھی کی جارہی ہے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 8 اور 14 میں کے ایم سی کی تقریباً سو ایکڑ اراضی پر قائم 2 ہزار گھروں، مارکیٹوں، کلینکس اور دیگر تجاوزات کے خلاف بھی کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، جس کے بدلے مکینوں سے بھتے کیلئے چندہ جمع کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتا یا کہ سیکٹر 4 کی چائنہ کٹنگ میں کامیابی ملنے پر سابق ٹاؤن ناظم کا مران اختر نے سیکٹر 8 کو ہدف بنا کر قبضے شروع کرائے۔ متحدہ کے سیکٹر ممبران، ٹارگٹ کلرز اور 25 سے زائد دہشت گردوں کی مدد سے سیکٹر 8 اے، بی، سی، ڈی، 9 سی، ایف ون، 17 اور 14 اے میں 5 ہزار سے زائد پلاٹ کاٹے گئے۔ یہاں بھی جنرل اسپتال، پارکس، کھیل کے میدان، پبلگ بلڈنگز، کمرشل مارکیٹ، پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ، انڈسٹریل ہومز، وومن کیئر سینٹر، ڈاکخانہ، پبلک لائبریری، ڈسپنسری، پارکنگ اور کمرشل دکانوں کیلئے مختص اراضی پر بڑے پیمانے پر چائنہ کٹنگ کی گئی جو ابتدا میں اونے پونے اور پھر بعد میں 10 لاکھ روپے فی پلاٹ تک فروخت کر کے رقوم متحدہ رہنماؤں اور دہشت گردوں میں تقسیم کی گئیں۔ پلاٹ کاٹنے کیلئے ٹاؤن کی منظور کردہ قرارداد کو ہتھیار بنایا گیا۔ سرکاری اراضی پر قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے والے مقامی معززین اور سماجی کارکنان کو نہ صرف جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، بلکہ کئی افراد پر قاتلانہ حملے بھی کئے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے متحدہ کارکنوں کے اہلخانہ سے فی پلاٹ 20 ہزار روپے لئے گئے۔ جبکہ ووٹ بنک بڑھانے کیلئے اندرون سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے متحدہ کارکنان کو یہاں لاکر آباد کیا اور ووٹر لسٹوں میں جعلی اندراج بھی کرائے گئے۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ سیکٹر 8 سی کے اصل ماسٹر پلان کے مطابق وہاں بنائے گئے چاروں پاکٹس کیلئے الگ الگ پارک کی اراضی مختص کی گئی تھی جس پر متحدہ دہشت گردوں کی جانب سے چائنہ کٹنگ کی گئی۔ اس بلاک میں موجود احمد رضا مسجد کے ساتھ واقع اراضی بھی چائنہ کٹنگ کی نذر ہوئی۔ سروے کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ بلدیہ سیکٹر 4 آئی میں چائنہ کٹنگ پلاٹوں پر تعمیر مکانات کو بجلی فراہمی کیلئے پی ایم ٹی لگوائی گئیں، وہیں کے الیکٹرک عملے نے غیر قانونی مکانات کو کنڈے کے ذریعے بجلی بھی فراہم کی۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ بلدیہ ٹائون سیکٹر 8 میں متحدہ دہشت گردوں نے 9 سے زائد مقامات پر قبضہ کر کے پلاٹ کاٹے۔ مذکورہ سیکٹر کی گوگل ارتھ سے 2006ء میں کھینچی گئی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ سرکاری اراضی پہلے خالی میدان کی صورت وہاں موجود تھی۔ تاہم اب گوگل ارتھ پر موجود نقشے کے مطابق مذکورہ اراضی پر اس وقت غیر قانونی پلاٹ قائم ہیں۔ معلوم ہوا کہ سیکٹر 8 سی میں واقع ایس ٹی پلاٹ نمبر 18کی اراضی پارک کی تعمیر کیلئے مختص کی گئی تھی جس پر چائنہ کٹنگ کر کے 80 گز کے 100سے زائد پلاٹ کاٹے گئے اور اب ان پر رہائشی مکانات تعمیر کئے جاچکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ متحدہ دہشت گردوں نے کسی بھی خالی اراضی کو نہیں بخشا۔ معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن میں کے ایم سی کے استعمال کیلئے ماسٹر پلان میں مختص کی گئی اراضی پر بھی قبضہ کر کے چائنہ کٹنگ کی گئی۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ مذکورہ اراضی پر اب حال ہی میں تعمیرات مکمل کی گئی ہیں اور درجنوں مکانات فروخت کئے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 8 ڈی میں گورنمنٹ اسکول کے ساتھ واقع ایس ٹی نمبر 72 پر متحدہ رہنماؤں نے چائنہ کٹنگ کی اور اب یہاں بھی رہا ئشی عما رتیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ بلدیہ ٹائون میں موجود گرڈ اسٹیشن کے ساتھ سیکٹر 8 اے میں ہائی ٹینشن لائن کے نیچے اور اس کے ساتھ ہی واقع 60 فٹ روڈ کے ساتھ چائنہ کٹنگ کر کے رہا ئشی پلاٹ کاٹے گئے ہیں جنہیں لاکھوں روپے فی پلاٹ کے حساب سے فروخت کیا گیا۔ مشاہدے میں آیا کہ سیکٹر 8 سی میں سروس روڈ پر قبضہ کر کے وہاں پیٹرول پمپ قائم کیا گیا جبکہ مذکورہ اراضی پر مکانات بھی تعمیر کئے گئے۔ مذکورہ پیٹرول پمپ کی اراضی 2 ہزار گز سے زائد رقبے پر مشتمل ہے جہاں ٹا ئر پنکچر کی دکان ہے اور رات کے اوقات میں گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بلدیہ ٹاؤن میں سرکاری اراضی پر ہونے والی چائنہ کٹنگ پلاٹوں کو مقامی افراد نے چند دنوں میں چٹیل میدان سے آبادی میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ بلدیہ ٹاؤن میں سرکاری اراضی پر قبضہ کر کے کی جانے والی چائنہ کٹنگ پر قائم مکا نات کو متحدہ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر یوٹیلیٹی سہولیات بھی فراہم کرائیں۔ سیکٹر 8 اے میں گرڈ اسٹیشن کے ساتھ موجود ہائی ٹینشن لائن کے نیچے اراضی پر بھی چائنہ کٹنگ کی گئی۔ مذکورہ اراضی نقشے میں ایس ٹی 51 کے نام سے مختص تھی اور مذکورہ اراضی ہائی ٹینشن لائن کیلئے اضافی طور پرچھوڑی گئی تھی جہاں قبضہ کر کے رہائشی پلاٹ بنائے گئے جو 4 ہزار گز سے زائد رقبے پر مشتمل ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ سیکٹر 8 ڈی میں واقع ایس ٹی نمبر 71 دو ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل ہے جہاں چائنہ کٹنگ کی گئی۔ سو کوارٹر کے نام سے موجود اس علاقے میں چائنہ کٹنگ پلاٹوں پر 2 منزلہ عمارتیں قائم ہیں۔ وہیں سیکٹر 8 بی کے درمیان واقع اراضی جس پر قبضہ کرتے ہوئے چائنہ کٹنگ کی گئی، اب یہاں مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔ مذکورہ اراضی ماسٹر پلان کے مطابق ڈسپنسری، پبلک بلڈنگ اور جامع مسجد کیلئے مختص تھی۔ اراضی پر واقع 80 گز کا ایک
پلاٹ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔ اسی طرح طرح ’’امت‘‘ کو دوران سروے معلوم ہوا کہ بلدیہ سیکٹر 8 بی میں واقع سرکاری اراضی پر بھی رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی۔ یہ اراضی بلدیہ ٹائون کے ما سٹر پلان کے مطابق پارک، پلے گرائونڈ اور پرائمری اسکول کیلئے مختص کی گئی تھی جس کا رقبہ 5 ایکڑ سے بتایا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن کے مذکورسیکٹر اور متصل چائنہ کٹنگ پلاٹوں میں رہنے والے مکینوں کے پاس ثبوت کے طور پر دستاویزات کی مد میں 100 روپے کے اسٹمپ پیپر رسید موجود ہیں، جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
مذکورہ چائنہ کٹنگ کو قانونی شکل دینے کیلئے وہی طریقہ واردات استعمال کیا گیا۔ 12 فروری 2009 کو بلدیہ ٹاؤن کونسل میں پیش کی جانے والی سفارشات میں بلدیہ ٹاؤن کے مختلف سیکٹروں کے منظور شدہ نقشہ جات میں مناسب تعداد سے زیادہ رفاہی پلاٹوں کی موجودگی ظاہر کی گئی۔ اس کے بعد بلدیہ ٹاؤن کے دیگر سیکٹر کے ساتھ ساتھ سیکٹر 8 ، اے، بی، سی، ڈی میں اسکول، کھیل میدان اور دیگر رفاہی خدمات کے طور پر مختص اراضی کو رہائشی بناتے ہوئے چائنہ کٹنگ کی گئی۔ ان پلاٹوں پر قبضے کی تجویز اس وقت کے نائب ناظم یوسی 2 شرافت علی نے دی جس کی تائید بلدیہ ٹائون کے کونسلر ڈاکٹر حمید شہزاد نے کی تھی۔ مذکورہ قرارداد کے ساتھ سیکٹر 8 میں موجود جن ایمنیٹی پلاٹوں کی تفصیلات منسلک کی گئیں، ان میں سیکٹر 8 سی میں کمرشل مارکیٹ کیلئے مختص اراضی پر چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے 24 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 سی میں موجود ایس ٹی نمبر 18 جو پارک کیلئے مختص تھی اور جس کا رقبہ 0.32 ایکڑ پر مشتمل ہے، یہاں بھی چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے 20 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 8 سی میں 0.32 ایکڑ رقبہ پر مشتمل پارک کیلئے مختص ایس ٹی نمبر 14 پر قبضہ کرتے ہوئے 20 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 بی میں کمرشل مارکیٹ کیلئے مختص اراضی پر 10 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 اے میں کے ایم سی کے استعمال کے لئے مختص کی گئی ایس ٹی نمبر 51 پر چائنہ کٹنگ کی گئی اور یہاں 7 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 اے میں ماسٹر پلان کے مطابق پلے گرائونڈ کے لئے رکھی گئی ایس ٹی 56 پر چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے 40 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 اے میں پرائمری اسکول کی تعمیر کے لئے مختص کی گئی ایس ٹی 57 پر 35 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 ڈی میں پارک و پلے گراونڈ کے لئے مختص ایس ٹی 71 جو کہ 1.66 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے یہاں چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے 35 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 8 ڈی میں ہی واقع ایس ٹی 72 جو اسکول کی تعمیر کے لئے مختص کی گئی تھی اس پر چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے 40 پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ ایس ٹی پلاٹ کا رقبہ 1.14 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ سیکٹر 8 ای میں موجود ایس ٹی نمبر 66 جو پارک کے لئے مختص تھی اس پر قبضہ کر کے یہاں 44 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 ای میں ہی موجود ڈسپنسری کی تعمیر کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 65 کو رہائشی پلاٹ بناتے ہوئے یہاں پر 24 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ سیکٹر 8 ای میں مارکیٹ کے لئے مختص اراضی کو رہائشی استعمال میں لاتے ہوئے اس پر بھی 24 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 9 ڈی میں پارک کے لئے مختص 1.48 ایکڑ رقبہ پر موجود ایس ٹی نمبر 45 پر چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے یہاں 60 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 9 ایف / 1 میں موجود سرکاری اراضی پر قبضہ کرتے ہوئے اس پر 120 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 8 اے میں ہائی ٹینشن لائن کے لئے مختص اضافی اراضی پر قبضہ کرتے ہوئے اس پر 20 رہائشی پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 9 ڈی میں ماسٹر پلان کے مطابق پرائمری اسکول کی تعمیر کے لئے مختص 0.61 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ایس ٹی نمبر 46 پر قبضہ کرتے ہوئے اس پر 36 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 9 ایف میں ڈسپنسری کی تعمیر کے لئے مختص ایس ٹی
پلاٹ نمبر 4 پر قبضہ کرتے ہوئے اس پر 24 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 9 ایف میں پرائمری اسکول کے قیام کے لئے مختص ایس ٹی نمبر 5 پر قبضہ کرتے ہوئے یہاں چائنہ کٹنگ کی گئی اور 40 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر ڈی 3 میں واقع ایس ٹی پلاٹ کی اراضی جو کلینک کے لئے مختص تھی اس پر قبضہ کر کے یہاں 50 پلاٹ کاٹے گئے۔
دوسری جانب بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 14 اے میں پارک کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 1 پر چائنہ کٹنگ کی گئی اور یہاں 24 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 14 بی میں ایس ٹی نمبر 1 جو پارک کے لئے مختص تھی اس پر بھی چائنہ کٹنگ کی گئی اور یہاں 44 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 14 بی میں اسکول کی تعمیر کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 3 پر چائنہ کٹنگ کرتے ہوئے مذکورہ اراضی پر 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ سیکٹر 14 بی میں ہی موجود ایس ٹی نمبر 4 جہاں ماسٹر پلان کے مطابق کلینک تعمیر ہونا تھا لیکن مذکورہ اراضی پر بھی چائنہ کٹنگ کی گئی اور یہاں 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 17 اے میں اسکول اور پارک کے لئے مختص ایس ٹی نمبر 2 کو رہائشی اراضی بناتے ہوئے یہاں 20 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 17 اے میں پارکنگ کے لئے مختص ایس ٹی نمبر 5 پر قبضہ کر کے مذکورہ اراضی پر 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 17 اے میں موجود ایس ٹی نمبر 6 پر بھی چائنہ کٹنگ کی گئی۔ مذکورہ ایس ٹی پلاٹ ماسٹر پلان کے مطابق پبلک لائبریری کی تعمیر کے لئے مختص تھا جہاں قبضہ کر کے 8 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 17 اے میں دکانوں کے لئے مختص کی گئی اراضی پر قبضہ کر کے یہاں 6 پلاٹ کاٹے گئے۔ ماسٹر پلان کے مطابق لیڈیز اینڈانڈسٹریل ہوم کے قیام کے لئے سیکٹر 17 اے میں مختص کی گئی ایس ٹی نمبر 7 پر قبضہ کیا گیا جہاں 12 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 17 اے میں چلڈرن پارک کے قیام کے لئے مختص ایس ٹی پلاٹ نمبر 3 پر قبضہ کر کے چائنہ کٹنگ کی گئی اور یہاں 8 پلاٹ کاٹے گئے۔ جبکہ سیکٹر 17 اے میں ہی موجود ایس ٹی پلاٹ نمبر 4 جو کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کے لئے مختص کیا گیا تھا اس پر قبضہ کر کے یہاں 10 پلاٹ کاٹے گئے۔ سیکٹر 14 سی میں پوسٹ آفس کی تعمیر کے لئے مختص کیا گیا ایس ٹی پلاٹ نمبر 4 جس پر قبضہ کیا گیا اور مذکورہ اراضی پر 8 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسکول کے قیام کے لئے مختص سیکٹر 14 سی میں موجود ایس ٹی پلاٹ نمبر 5 پر چائنہ کٹنگ کر تے ہوئے یہاں 44 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 14 سی میں موجود ایک اور ایس ٹی پلاٹ پر قبضہ کیا گیا اور یہاں بھی چائنہ کٹنگ کی گئی۔ مذکورہ ایس ٹی پلاٹ بھی اسکول کی تعمیر کے لئے مختص تھا جس کا ایس ٹی نمبر 6 ہے ‘ سیکٹر 14 سی میں موجود ایس ٹی نمبر 7 جو کہ پارک کی تعمیر کے لئے مختص تھا، اس پر قبضہ کر کے چائنہ کٹنگ کی گئی اور یہاں 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ اسی طرح سیکٹر 14 سی میں پارک کے لئے مختص ایک اور ایس ٹی پلاٹ پر قبضہ کر کے یہاں بھی 16 پلاٹ کاٹے گئے۔ مذکورہ پلاٹ سیکٹر 14 سی میں ایس ٹی نمبر 8 کے طور پر موجود تھا۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ ٹائون سیکٹر 4 میں چائنا کٹنگ کے بعد متحدہ دہشت گردوں کو پلاٹوں پر قبضہ سے حاصل آمدنی کا معلوم ہوا تو بلدیہ ٹائون کے نامی گرامی دہشت گرد اپنا حصہ مانگنے آگئے۔ معلوم ہواہے کہ کامران اختر نے تمام چائنہ کٹنگ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے دو کے ایم سی افسران کے علاوہ پارٹی کے عہدیداروں اور ٹارگٹ کلرز کو بھی قبضہ گروپ میں شامل کرلیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ عام طور پر چائنہ کٹنگ میں سابق ٹائون ناظم کامران اختر، سابق نائب ٹاؤن ناظم زاہد محمود، انور قائمخانی، سابق یونٹ انچارج پپی، رانا آصف، سیہل کونسلر، سابق رکن قومی اسمبلی عابد علی امنگ، سابق رکن صوبائی اسمبلی حنیف شیخ، سابق رکن قومی اسمبلی سلمان مجاہد بلوچ، بدنام زمانہ ٹارگٹ کلر یعقوب کالیا، شاہد برگر اور شوکت سائیں کے علاوہ کامران اور کے ایم سی افسران اکرام اور عابد نے مل بانٹ کر بلدیہ ٹائون کے مختلف سیکٹرز پر غیر قانونی پلاٹ کاٹے اور کروڑوں روپے بٹورے۔ ذرائع نے بتایا کہ ابتدا میں متحدہ کے مقتول کارکنوں کے اہلخانہ کو فی کس 20 ہزار کے عوض پلاٹ فروخت کیئے گئے اور بیشتر معمولی اضافے کے ساتھ خود ہی خرید کر آگے مہنگے داموں فروخت کردیئے۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن میں قبضے کے خلاف وہیں کی ایک مقامی شخصیت رستم ہزاروی نے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال سمیت متعلقہ داروں کے ذمہ داران کو متعدد خطوط لکھے، جس میں انہوں نے تجاوزات کی نشاندہی کی اور انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ رستم سہرودی کی ایک درخواست میں کہا گیا کہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 14 اے، سیکٹر 12 سی کے درمیان 100 فٹ روڑ پر موجود کمرشل پلاٹوں کے سامنے سابقہ ٹاؤن انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر 60 ‘60 گز کے رہائشی پلاٹ کاٹے ہیں۔ جبکہ ان پلاٹوں کے سامنے 60 گز کی رہائشی پٹی کاٹ کر 100 فٹ کی سڑک کو ختم کیا گیا تو کمرشل پلاٹوں کی حیثیت بھی رہائشی پلاٹوں میں تبدیل ہوجائے گی۔ جس کا اثر بلدیہ ٹاؤن کے دیگر سیکٹروں پر بھی پڑے گا۔ لیکن اس وقت کے سٹی ناظم مصطفی کمال سمیت کسی ادارے نے ان غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More