امت رپورٹ
یورپ کے 25 فیصد شہری نقسیاتی مریض بن چکے، جن میں اکثریت نوجوانوں اور بیروزگاروں کی ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے 30 ممالک میں عوام الناس کی ذہنی صحت ابتر نکلی ہے اور مختلف ممالک میں 19 سے 25 فیصد عام شہری دماغی اور نفسیاتی امراض کا شکار نکلے ہیں۔ جن میں سے ہر سال 80 ہزار سے زائد مریض موت کے منہ میں جا پہنچتے ہیں۔ نفسیاتی شہریوں کی تعداد اور مریضوں کے لحاظ سے آئر لینڈ، بلجیم، جمہوریہ چیک، فن لینڈ، فرانس، ہنگری، اٹلی، ہالینڈ، سلوانیہ، اسپین، پرتگال اور برطانیہ سر فہرست ہیں جہاں 19 سے 25 فیصد شہری نفسیاتی مسائل کا شکار یا زیر علاج ہیں، جبکہ اعداد و شمار کی رو سے علم ہو ا ہے کہ آئرلینڈ نفسیاتی باشندوں کے لحاظ سے سر فہرست ہے، جہاں 28 فیصد طلبا و طالبات نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں اور نیشنل ویمن کونسل آئر لینڈ کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ آئرش لڑکیوں میں نفسیاتی مسائل کے سبب خود کشی کا رجحان پوری یورپی یونین میں سب سے زیادہ ہے۔ نفسیاتی امراض کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے والے ماہر یورپی ادارے ’’او سی ای ڈی‘‘ کا کہنا ہے کہ یورپی باشندوں میں نفسیاتی پن اور دماغی امراض کی بڑھوتری کے سبب ان میں اموات کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نفسیاتی مسائل، شیزوفرینیا ،قنوطیت، خود پسندی، تنہائی، ڈپریشن، تنائو، بلڈ پریشر اور دماغی عدم توازن سمیت مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کی موت طبعی عمر سے کم از کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ بیس برس پہلے ہی واقع ہوجاتی ہے اور یورپی ممالک میں یہی کچھ معاشرتی ’’ریڈار‘‘ پر دیکھا سکتا ہے کہ جنریشن تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یورپی ممالک میں نفسیاتی پن کی تیز رفتار یلغار پر’’مینٹل ہیلتھ یورپ‘‘ کی ڈائریکٹر کلوڈیا میرینٹی کا استدلال ہے کہ یورپ میں نفسیاتی پن میں اضافے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کیلئے نجی انوسٹرز کو بھی میدان عمل میں آنا ہوگا کیونکہ سرکاری اسپتال اور محکمہ صحت اس معاملہ پر باوجود کوششوں کے کما حقہ کامیاب نہیں دکھائی دیتے۔ بظاہر تہذیب یافتہ اور با اخلاق دکھائی دینے والے یورپی باشندوں کی ذہنی صحت کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 22 یورپی ممالک میں ہر پانچواں اور چنیدہ آٹھ ممالک میں ہر چوتھا فرد نفسیاتی مریض ہے اور اپنا علاج کروا رہا ہے یا دماغی سکون اور نفسیاتی آرام کیلئے دوائیں پھانک رہا ہے۔ ’’دی آسٹریلین ‘‘ اور ’’ڈیلی گلوب اینڈ میل‘‘ نے دلچسپ رپورٹوں میں بتایا ہے کہ ہر برس یورپی ممالک میں اربوں ڈالرز شہریوں کی دماغی صحت کی بحالی کیلئے خرچ کئے جارہے ہیں، لیکن نفسیاتی پن ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا جارہا ہے جس سے یورپی معاشرے میں شہریوں اور خاندانوں میں خلیج اور اختلافات بڑھ رہے ہیں اور اس سے قتل، تشدد اور خود کشی میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ یورپی اور امریکی میڈیا کا اس ضمن میں ماننا ہے کہ نفسیاتی پن کے مسائل بیان کی جانے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں، کیونکہ نفسیاتی مسائل کا شکار کوئی بھی فرد خود کو ’’نفسیاتی‘‘ تسلیم نہیں کرتا اور اس کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک اور فٹ فاٹ ہے لیکن نفسیاتی پن کو ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ماننے والے یورپی ادارے یورپین کمیشن اینڈ آرگنائزیشن فار کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (OCED)کی جانب سے 2018 کے اعداد و شمار پر مبنی ایک چشم کشا رپورٹ میں بتایا ہے کہ یورپی ممالک میں نفسیاتی پن اونچی حدوں کو چھو رہا ہے، جس میں بیروزگاری اور معاشی و معاشرتی عدم تحفظ کے احساس نے بڑھاوا دیا ہے۔ ’’ہیلتھ ایٹ گلانس‘‘ نامی اس دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشرتی عدم توازن، شراب خوری، معاشی مسائل، بے روز گاری، خاندانی آویزش سمیت متعدد اسباب نے یورپی ممالک کے کروڑوں باشندوں کو ’’نفسیاتی مریض‘‘ بنا دیا ہے جس سے متعلقہ ممالک کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹس جنگی بنیادوں پر نبرد آزما ہیں لیکن اس ضمن میں شہریوں کے اندر پائے جانے والے مسائل اور امراض میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ رپورٹ جاری کرنے والے ادارے نے تمام یورپی ممالک کو انتباہ کیا ہے کہ اگر شہریوں کے اندر پائی جانے والی دماغی بیماریوں اور نفسیاتی مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو اس کے منفی نتائج انسانی، معاشرتی اور معاشی طور پر مرتب ہوں گے جس سے یورپی معاشرہ تلپٹ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین کے ممالک میں آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد نفسیاتی بن چکے تھے، جن میں 2016 میں ہلاکتوں کی تعداد 84 ہزار رہی۔ برسلز میں کام کرنے والے ایک ماہر نفسیات رچرڈ اسٹوکس کا کہنا ہے کہ نفسیاتی مسائل خاندانی نظام کے ٹوٹنے، معاشرتی تنہائی اور معاشی مسائل سمیت دیگر عوامل سے بڑھ رہے ہیں اور ایسی کیفیت میں مریض شراب نوشی سمیت تنہائی کا سہارا لیتا ہے اور اسی سبب اس کے نفسیاتی مسائل تیزی سے بڑھتے ہیں اور وہ موت کے منہ میں جا پہنچتا ہے جبکہ ہزاروں یورپی باشندوں نے نفسیاتی مسائل سے زچ ہوکر خود کشی بھی کی ہے۔
٭٭٭٭٭