پولیس اور کے ایم سی دوبارہ تجاوزات قائم کرانے لگی

0

امت رپورٹ
پولیس اور کے ایم سی کی جانب سے دوبارہ تجاوزات قائم کرائی جانے لگیں۔ صدر اور اولڈ سٹی ایریا میں آپریشن کے بعد دوبارہ عارضی دکانیں، ٹھیلے اور پتھارے لگوا کر سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات تھے کہ آپریشن کے بعد مسلسل مانیٹرنگ کی جائے تاکہ تجاوزات دوبارہ قائم نہ ہوں۔ ذرائع کے مطابق دو گنے بھتے وصول کرکے ایمپریس مارکیٹ کے اندرونی حصے میں عارضی دکانیں کھلوا دی گئی ہیں۔ جبکہ صدر، لائنز ایریا، لائٹ ہاؤس اور اولڈ سٹی ایریا کے دیگر علاقوں میں ٹھیلے اور پتھارے دوبارہ لگنا شروع ہوگئے ہیں، جس سے کشادہ سڑکیں اور گلیاں پھر تنگ ہوگئی ہیں اور ٹریفک جام ہونے لگا ہے۔ دوسری جانب میئر کراچی نے صدر، ایمپریس مارکیٹ اور اولڈ سٹی ایریا میں 7 ہزار سے زائد دکانیں مسمار کروا کے صرف ساڑھے تین ہزار ان دکانداروں کو متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا ہے، جو کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متبادل جگہ کے حصول کیلئے وہ لوگ بھی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، جن کا متاثرہ تاجروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ متاثرہ تاجروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میئر کراچی اور کے ایم سی عملے کے خلاف کارروائی کرے، جنہوں نے بلدیہ کو کرایہ ادا کرنے والے تاجروں کی دکانیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ تاجروں کے بقول ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کے ایم سی والوں کو بھتہ نہیں دیتے تھے۔ اب بھتہ دینے والے ٹھیلے اور پتھارے والوں سے دگنی وصولی کرکے انہیں سڑکوں کے کنارے اور فٹ پاتھوں پر کاروبار کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے، جس سے دوبارہ ٹریفک جام ہونے لگا ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں تاجروں نے چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی ہے کہ تجاوزات کے نام پر کے ایم سی کی پیدا گیری مہم بند کرائی جائے، ورنہ ہزاروں تاجر سڑکوں پر آجائیں گے۔ تاجروں سے بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ کے ایم سی کا عملہ اور پولیس بھتہ دگنا کرکے شہر کو ایک بار پھر تجاوزات کا جنگل بنانا چاہتی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات تھے کہ تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے، تمام فٹ پاتھ اور سڑکیں کلیئر کرائی جائیں۔ پھر نگرانی کیلئے ٹیمیں تعینات کی جائیں تاکہ تجاوزات دوبارہ قائم نہ ہوں۔ واضح رہے کہ کے ایم سی نے 27 روز قبل تجاوزات کیخلاف آپریشن کا آغاز ایمپریس مارکیٹ سے کیا تھا۔ اس دوران مارکیٹ کی قدیم عمارت سے متصل دکانوں کا صفایا کیا گیا اور صدر سے ٹھیلے پتھارے ہٹا دیئے گئے۔ سڑکیں کھلنے اور فٹ پاتھوں پر کاروباری سرگرمیاں ختم ہونے سے ٹریفک کی روانی بہتر ہوگئی تھی، جس پر شہریوں نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا۔ لیکن کے ایم سی کے عملے اور پولیس نے دوبارہ تجاوزات قائم کرانی شروع کردی ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے اندر عارضی دکانیں بنالی گئی ہیں اور بعض دکانیں جو گرائی نہیں گئی تھیں، وہ دوبارہ کھول لی گئی ہیں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے کئے گئے سروے میں دیکھا گیا کہ کے ایم سی کے انسداد تجاوزات عملے کی ملی بھگت سے رینبو سینٹر کے سامنے ایمپریس مارکیٹ کی باؤنڈری وال کے ساتھ لنڈا کے کپڑوں، پتنگوں، خشک میوہ جات اور دیگر اشیا کے اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ جبکہ گوشت مارکیٹ کے اندر گرائی گئی بعض دکانوں کو ٹھیک کرکے ان پر گوشت فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے درمیانی احاطے میں بھی پتھارے لگ گئے ہیں، جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ جبکہ گھڑی والی بلڈنگ کے نیچے اور سابقہ سبزی مارکیٹ کے اندرونی حصے میں درجن سے زائد دکانیں دوبارہ کھول لی گئی ہیں، جن میں مصالحہ جات، کھانے پینے کی اشیا، ڈرائی فروٹ، مربہ جات، انڈوں اور دیگر اشیا کی دکانیں شامل ہیں۔ دکاندار محمد انور کا کہنا تھا کہ جب تک متبادل دکانیں نہیں ملتیں، اس طرح کام چلا رہے ہیں۔ ایک پتھارے والے رمضان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی اور پولیس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، دگنا بھتہ دے کر ادھر کام کر رہے ہیں۔ پتھارے والے شکیل نے بتایا کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی، لہذا مک مکا کرکے دوبارہ کام شروع کیا ہے۔ مہربان اور جان محمد کے بقول کے ایم سی والوں نے کہا ہے کہ افسران دورہ کرنے آئیں تو پتھارے خالی کر دینا۔ منور نے بتایا کہ وہ یہاں اچار اور مربہ جات کا اسٹال لگاتا تھا۔ اب منہ مانگا بھتہ دیکر دوبارہ کام شروع کیا ہے۔ ہاشم، توفیق اور وحید نے بتایا کہ پولیس اور کے ایم سی والے یومیہ بنیاد پر ’’خرچہ‘‘ لے کر جاتے ہیں۔ پہلے تین سو روپے دیتے تھے، اب چھ سو روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ سرور نے بھی سبزی کا پتھارا لگایا ہوا تھا، اس کا کہنا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کے مرکزی دروازے پر تالا لگا دیا گیا ہے لیکن اندر ملی بھگت سے کاروبار چل رہا ہے۔ صدر کے دیگر علاقوں میں بھی سڑکوں پر دوبارہ ٹھیلے، پتھارے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہفتے کے روز سے نیو پریڈی اسٹریٹ پر ٹریفک کا دبائو بڑھ گیا ہے کیونکہ ایم اے جناح روڈ پر گرین بس منصوبے کے تعمیراتی کام کی وجہ سے نمائش چورنگی سے کیپری سینما تک دوسرا ٹریک بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اب نیو پریڈی اسٹریٹ اور صدر دواخانہ سے ریگل چوک تک ٹریفک کا رش بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب کے ایم سی، ڈی ایم سی، ٹریفک پولیس اور تھانوں کی پولیس نے بھتہ دگنا کرکے ٹھیلے پتھارے دوبارہ لگوانا شروع کردیئے ہیں۔ نیو پریڈی اسٹریٹ پر دھوبی گھاٹ کے قریب ہفتہ بازار گراؤنڈ سے لے کر اسلامیہ ڈگری کالج، منی بس 16 نمبر کے آخری اسٹاپ تک، صدر دواخانہ سے شہاب الدین مارکیٹ تک، ٹیلی فون ایکسچینج والی گلی اور دیگر گلیوں میں نئے پرانے جوتے، لنڈے کے کپڑے، برتن، فروٹ اور دیگر اشیا کے ٹھیلے لگ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں نیو پریڈی اسٹریٹ پر شدید ٹریفک جام ہورہا ہے۔ اس طرح لائٹ ہاؤس میں گرائی گئی دکانوں پر لنڈا کے کپڑوں کے اسٹالز لگ چکے ہیں۔ جامع کلاتھ سے ٹاور تک اولڈ سٹی ایریا میں دوبارہ پتھارے اور ٹھیلے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ کے ایم سی نے ایمپریس مارکیٹ میں 2500 سے زائد دکانیں مسمار کیں، جامع کلاتھ پر 500 سے زائد، آرام باغ اور لائٹ ہاؤس پر 800 سے زائد، میڈیسن مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ، پلاسٹک گلی، کھوڑی گارڈن اور جوڑیا بازار میں 3 ہزار 46 دکانیں منہدم کی گئی ہیں۔ جبکہ میئر کراچی کا کہنا ہے کہ 3575 دکانداروں کو متبادل جگہ دیں گے۔ قرعہ اندازی کرکے سابقہ کے ایم سی مارکیٹ کے کرایہ ادا کرنے والے دکانداروں کو متبادل جگہ دیں گے۔ اس حوالے سے سمری سندھ حکومت کو بھجوا چکے ہیں۔ جبکہ تاجروں کا کہنا ہے کہ تمام متاثرین کو متبادل جگہ نہیں دی جائے گی۔ کیونکہ کے ایم سی کے بعض رشوت خور اہلکار میدان میں آچکے ہیں اور کہہ رہے کہ خرچہ کرو تو تمہارا نام فہرست میں ڈال دیں گے۔ کھوڑی گارڈن میں 4 ہزار دکانیں گرانے کے بعد صرف 130 دکانوں کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ متاثرہ دکانداروں کو 8 مختلف مقامات پر دکانیں دی جائیں گے۔ ایمپریس مارکیٹ کے 744 دکانداروں کو کہا جا رہا ہے کہ انہیں پارکنگ پلازہ میں 240 دکانیں دیں گے۔ واضح رہے کہ صدر پارکنگ میں کل 160 دکانیں ہیں اور یہ کے ڈی اے کی ملکیت ہیں۔ متاثرہ دکانداروں کو لیاقت آباد سپر مارکیٹ، صدر کے ایم سی مارکیٹ، ایم ٹی خان روڈ، لائنز ایریا، رنچھوڑ لائن، کھڈا مارکیٹ، فریئر مارکیٹ اور شہاب الدین مارکیٹ میں دکانیں دینے کا کہا گیا ہے۔ تاجروں نے چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی ہے کہ خدارا کراچی کے تاجروں کو فاقوں سے بچائیں اور کے ایم سی کے کرپٹ افسران کے خلاف فوری کارروائی کریں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More