عظمت رحمانی
آئن لائن کمپنیوں کے ڈرائیور بھی چوری سمیت مختلف وارداتوں میں ملوث ہونے لگے ہیں۔ خاتون مسافر سے چھیڑ چھاڑ کے بعد ایک اور مسافر سے موبائل فون اور بٹوہ چھینے جانے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ پولیس کے مطابق دونوں واقعات مشکوک ہیں۔ رجسٹرڈ شدہ ڈرائیور اس قسم کی حماقت سے گریز کرتے ہیں۔
بیرون ممالک کی آن لائن کمپنیاں ’’اوبر‘‘ اور ’’کریم‘‘ کی جانب سے شہر میں مسافروں کو لگژری سفر سستے داموں کرانے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جس کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ ہر لحاظ سے محفوظ ہونے کے سبب عوام کی جانب سے آن لائن سروس میں سفر کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم گزشتہ چند برس سے محفوظ سمجھی جانے والی آن لائن ٹیکسی سروس (اوبر اور کریم) میں بھی خرابیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ اس حوالے سے ایک روز قبل شہید ملت روڈ کے رہائشی طاہر مجید ولد عبدالمجید کی جانب سے تھانہ فیروز آباد میں ایک درخواست جمع کرائی گئی۔ درخواست کے مطابق طاہر مجید نے شہید ملت روڈ، سمر ون اپارٹمنٹ سے کورنگی میں واقع اپنے گھر جانے کیلئے رائیڈ بُک کرائی، جس کے بعد کریم کی آن لائن سروس کے ذریعے ان کے پاس ایک عمران نامی رائیڈر آیا جس کے ساتھ بیٹھ کر وہ روانہ ہی ہوئے تھے کہ کچھ فاصلے پر جاکر ڈرائیور نے پستول تان لی اور مسافر کا موبائل فون اور بٹوہ لے لیا۔ جس کے بعد مزاحمت کی کوشش پر موٹر سائیکل سوار کے دیگر دو ساتھی بھی آگئے، جن کے پاس اسلحہ تھا۔ درخواست کے مطابق کریم کمپنی کے رائیڈر کی آئی ڈی 610798582 تھی، جبکہ چھینے گئے موبائل کا آئی ایم ای آئی 355623088617816 ہے۔ متاثرہ مسافر طاہر مجید کے مطابق واقعہ سے متعلق درخواست فیروز آباد تھانے میں جمع کرا دی ہے، آن لائن ٹیکسی سروس کو بھی واقعے سے متعلق آگاہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ طاہر نے مطالبہ کیا ہے کہ مجھ سے لوٹ مار کرنے والے ملزم کوگرفتار کر کے موبائل فون اور نقدی دلوائی جائے۔
معلوم رہے کہ 21 اکتوبر کو شاہراہ فیصل پر آن لائن ٹیکسی کے ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کرنے پر خاتون نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دی تھی۔گورا قبرستان کے سامنے ایک خاتون نے چلتی کار سے چھلانگ لگائی تھی، جس کو دیکھ کر ٹریفک فوری رک گئی تھی اور خاتون کے شور شرابے پر شہریوں نے کار میں سوار ڈرائیور کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر ڈرائیور کو شہریوں کے چنگل سے نکال کر تھانے منتقل کر دیا تھا۔ ایس ایچ او پیر شبیر حیدر کے مطابق حریم نامی خاتون نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اس نے یونیورسٹی روڈ سے عسکری ٹو جانے کیلئے آن لائن ٹیکسی بک کی تھی، ڈرائیور شیشے کی مدد سے مجھے مسلسل دیکھ رہا تھا اور بات کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم میں نے اس کو نظر انداز کردیا لیکن جب بات حد سے زیادہ بڑھ گئی تو مجھے شک ہوا کہ کہیں یہ مجھے اغوا نہ کر لے اور میں نے کچھ سوچے بنا چلتی کار سے چھلانگ لگا دی۔ خاتو ن کے بیان کے بعد زیر حراست ڈرائیور ذوالفقار کے خلاف مقدمہ نمبر 272/18 خاتون کی مدعیت میں درج کرلیا گیا تھا۔ جس کے بعد مذکورہ کیس کی تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ڈرائیور نے اپنی غلطی کو تسلیم کرلیا تھا، جبکہ اس کیس میں غلطی متعلقہ خاتون کی بھی تھی کیونکہ اس نے ایک ہی رائیڈر کے دوران 3 بار ڈراپ آف لوکیشن تبدیل کی، جس پر ڈرائیور کا بیک سیٹ پر ان کو دیکھنا فطرتی عمل تھا۔ اس کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لینے کے حوالے سے سوال پر پیر شبیر حیدر کا کہنا تھا کہ کیس ختم ہو گیا ہے کیونکہ دونو ں کے درمیان معاملہ حل ہو گیا تھا۔ اس سے قبل اسلام آباد میں بھی اس سے زیادہ چونکا دینے والا واقعہ پیش آچکا ہے، جس میں آن لائن ٹیکسی ڈرائیور کو مسافروں نے قتل کر دیا تھا اور اس سے گاڑی چھین کر فرار ہو گئے تھے۔ 24 فروری کو اسلام آباد ایف ٹین مرکز سے سیکٹر جی 13 پر جنید مصطفی نامی نوجوان کریم کی گاڑی 658 BEG کے ذریعے مسافر کو لے کر جا رہا تھا کہ اس کو سیکٹر جی 13 کے قدرے سنسان علاقے میں جا کر قتل کردیا تھا۔ ملزم کو بعد ازاں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ تاہم کراچی میں ہونے والی دونوں وارداتوں میں پولیس کی جانب سے ناقص تفتیش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 26 نومبر کو پیش آنے والا واقعہ 30 نومبر کو رپورٹ کیا گیا، جبکہ تاحال کسی بھی افسر کو تفتیش کیلئے مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل معیار کی نجی کمپنیوں میں اچھا و معیاری سفر سستے داموں کرانے والی کمپنیوں کے ان کیسز کے بعد شہر بھر میں ہزاروں مسافرروں اور اس شعبہ سے وابستہ ڈرائیورز میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ایس ایچ او تھانہ فروز آباد اورنگ زیب خٹک سے متعدد بار رابطہ کیا گیا تاہم ان کے نمبرز بند تھے، جس کے بعد ڈیوٹی افسر پیر محمد سے رابطہ کیا گیا تو ان کو کہنا تھا کہ ابھی تک ہم نے اس کیس میں مدعی کا بیان نہیں لیا اور نہ ہی اس ایشو پر کوئی تفتیش کی ہے۔ فیزوز آباد تھانے کے ہی ایک تفتیشی افسر جاوید کا کہنا ہے کہ ایسوں کیسوں میں اکثر مدعی کی خود غلط ہوتے ہیں اور اس کیس میں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ اس حوالے سے اوبر اور کریم سے رابطے کیلئے متعدد ای میلز کی گئیں، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
٭٭٭٭٭