ایس اے اعظمی
جرمنی کی اسلام دشمن حکومت کی جانب سے منعقد کی گئی کانفرنس کے مسلمان شرکا کے کھانے کے مینو میں خنزیر کا گوشت بھی پیش کردیا گیا۔ کانفرنس میں شریک مسلمانوں نے کھانے میں حرام گوشت کے ساسیج دیکھے تو شدید احتجاج کیا، جس پر نسل پرست جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ سی ہوفر نے معذرت کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ تاہم مقامی مسلمانوں اور سفارتی ذرائع نے جرمن حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترک نژاد جرمن باشندوں اور ترک سفارت کاروں نے جرمن حکومت کو سنگین غلطی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ جب جرمن وزارت داخلہ کو اسلامی غذائوں اور حلال و حرام کے فرق کا معلوم نہیں تو اس کو اسلامی کانفرنس منعقد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ڈیلی کالر نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 28 نومبر 2018ء کو جرمن اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس کی صدارت وزیر داخلہ ہورسٹ سی ہوفر نے کی۔ انہوں نے سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی مسلم مندوبین کے روبرو کہا تھا کہ جرمنی میں مسلمان پناہ گزینوں کو محدود حقوق ملیں گے اور جرمنی میں کسی بھی مسجد کو غیر ملکی فنڈنگ نہیں برداشت کی جائے گی۔ جبکہ جرمنی میں مساجد کے تمام امام حضرات کو تبدیل کرکے سرکاری امام مقرر کئے جائیں گے، جن کی تعلیم و تربیت کا بیڑا جرمن حکومت اُٹھائے گی اور حکومتی تربیت یافتہ امام حضرات کو ہی مساجد کی امامت کا حق حاصل ہوگا۔ جرمن اسلامی کانفرنس سے اپنے خطاب میں اسلام مخالف جرمن وزیر داخلہ سی ہوفر نے مسلم کانفرنس کے شرکا پر واضح کیا کہ انہیں اپنی اقدار و ثقافت کو جرمن معاشرے کے ساتھ مطابقت کیلئے تبدیل کرنا ہوگا۔ جب جرمن وزیر داخلہ اس کانفرنس میں مسلمانوں کو اپنی ثقافت اور اقدار کو جرمن معاشرے میں ضم کرنے کا بھاشن دے رہے تو اسی وقت کانفرنس کے شرکا کیلئے ڈائننگ ہال میں سبزی، مچھلی، سوپ سمیت 13 اقسام کے کھانوں میں خنزیر کے گوشت سے بنے ساسیج بھی رکھے جا رہے تھے۔ ہر ڈش کو بوفے میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اہتمام کیا گیا تھا کہ اس کے بارے میں لکھا جائے کہ یہ کس چیز کی بنی ہوئی ہے۔ ساسیج کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ یہ ڈش خنزیر کے خون، بافتوں، چربی اور گوشت کے ریشوں سے تیار کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جرمن صحافی کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ شاید یہ جانچنے کی کوشش کررہے تھے کہ مسلمان حرام گوشت پر اعتراض کریں گے یا خاموشی اختیار کرلیںگے۔ اگر اعتراض نہیں کرتے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوگا کہ جرمنی میں موجود مسلمان ’’جرمن برانڈ اسلام‘‘ پر رضامند ہیں۔ جرمن صحافی تونسے اوزداما نے وزیر داخلہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ کیا اسلامی کانفرنس کے شرکا کو خنزیز سے بنے ساسیج کھلانا اسی ’’جرمن برانڈ اسلام‘‘ کی تھیوری ہے جس کو وزیر داخلہ نے گزشتہ ماہ پیش کیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جرمن وزیر داخلہ سی ہوفر نے خنزیری ڈش کے ذریعہ مسلمانوں کو ایک کھلا پیغام بھجوایا ہے۔ ایک اور جرمن صحافی شمات اوزیل نے سوال کیا ہے کہ اسلامی کانفرنس میں خنزیری گوشت کی ڈش رکھنے کو ’’غلطی‘‘ قرار دینے والے وزیر داخلہ سی ہوفر کیا بتا سکتے ہیں کہ ان کی وزارت داخلہ کسی یہودی تقریب میں ایسی غلطی کرسکتی ہے۔ اپنی رپورٹوں میں روسی میڈیا نے یاد دلایا ہے کہ اسلامی کانفرنس کے منتظم اعلیٰ اور میزبان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ سی ہوفر خود بھی اسلام دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور وہ ایک ماہ قبل ہی ایک پیغام اور انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ جرمن معاشرہ عیسائیوں کیلئے ہے اور اس سوسائٹی میں اسلام یا مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اپنے متنازع انٹرویو میں جرمن وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جرمنی میں موجود مسلمان ’’جرمن برانڈ اسلام‘‘ کے تحت اس ملک میں زندگی بسر کریں، لیکن صرف ایک ماہ کے اندر اندر موصوف نے اپنے ’’جرمن برانڈ اسلام‘‘ کے خیالات کے تحت نا صرف وزارت داخلہ کے تحت اسلامی کانفرنس بلوائی بلکہ اس میں شریک مسلمانوں کو حرام جانور کے گوشت کا بنا ساسیج بھی پیش کیا، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ سفارتی اور انتظامیہ عہدوں پر تعینات کلیسائی رہنما مسلمانوں سے کس طرح بغض رکھتے ہیں۔ جرمن میڈیا میں جان بوجھ کر چھپائی جانے والی اس افسوس ناک اور مسلمانوں کے ایمان، عقائد اور جذبات سے کھیلنے والی خبر کو اماراتی جریدے دی نیشنل نے شائع کیا ہے۔ ادھر جرمن اسلامی کونسل کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت کا یہ بیان اور معذرت ’’عذر گناہ‘‘ کے مترادف ہے اور اس کانفرنس کے منتظمین کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اسلامی عقائد اور حلال یا حرام جانور کا کوئی علم نہیں تھا۔ محض گمراہ کرنے اور مسلمانوں کی بے عزت کرنے کے مترادف ہے۔ جرمن مقامی اسلامی ذرائع کے حوالے سے علم ہوا ہے کہ اسلامی کانفرنس کیلئے سینکڑوں شرکائے کرام کو دنیا بھر سے اور بالخصوص جرمنی سے دعوت دی گئی تھی، لیکن اس کانفرنس کے مینو میں شرکا کیلئے فراہم کی جانے والی فہرست میں blutwurst نامی کبابوں کی ڈش بھی شامل کی گئی تھی، جس میں خنزیر کو گوشت وغیرہ شامل کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جرمن معاشرے میں مسلم مخالف خیالات اور جذبات عروج پر ہیں اور دو تہائی سیاسی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان پناہ گزینوں کو کسی بھی قیمت پر اس ملک میں دیکھنا پسند نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی مسلمانوں کیلئے نہیں بنا ہے۔ واضح رہے کہ جرمن حکومت چاہتی ہے کہ تمام حالیہ امام و خطیب حضرات کو مساجد کی امامت سے ہٹا کر قادیانی اور سکیولر نوجوانوں کو اماموں کی سرکاری ٹریننگ دے کر مساجد میں تعینات کیا جائے۔ اس ضمن میں جرمنی میں موجود قادیانیہ جماعت کے ذمہ داران جرمن حکومت سے رابطوں میں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ 2006ء میں جرمنی میں منعقدہ پہلی اسلام کانفرنس میں بھی خنزیر کا گوشت رکھا گیا تھا اور کانفرنس کے سرکاری شرکا اور منتظمین کو اچھی طرح علم تھا کہ مسلمان خنزیر نہیں کھاتے۔
٭٭٭٭٭