ماں کے طعنوں نے16سالہ بچے کو باپ کا قاتل بنا دیا

0

اقبال اعوان
ماں کے طعنوں نے 16 سالہ لڑکے کو باپ کا قاتل بنادیا۔ تیسرے نمبر کا بیٹا بلال باپ کا بے انتہا لاڈلا تھا۔ جبکہ دیگر 6 بچے ماں سے زیادہ قریب تھے۔ عثمانیہ کالونی کے رہائشی جلیل نے 4 ماہ قبل بیوی کو جھگڑے کے دوران طلاق دے دی تھی۔ طلاق کے بعد ماں، بچوں کے ساتھ اسی عمارت میں رہتی رہی۔ جبکہ باپ دوسری منزل پر منتقل ہوگیا تھا۔ علیحدگی کے باوجود سابق میاں بیوی کے جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ دوسری جانب مطلقہ خاتون اپنے تیسرے نمبر کے بیٹے بلال کو طعنے دیتی تھی کہ تیرے باپ نے مجھے بڑھاپے میں طلاق دی ہے، اس سے برا انسان کوئی نہیں۔ آخر کار ایک روز مشتعل بلال نے باپ کو چھریاں مار کر قتل کر دیا۔
افسوسناک واقعہ چار روز قبل جمعرات کی شب رضویہ سوسائٹی تھانے کی حدود جہانگیر آباد کے علاقے عثمانیہ کالونی میں پیش آیا۔ پولیس کو اطلاع دی گئی تھی کہ ایک گھر میں بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ 55 سالہ جلیل ولد شکیل کی لاش گھر پر پڑی ہے۔ جبکہ ملزم 16 سالہ بلال موقع سے فرار ہوگیا ہے۔ پولیس نے کارروائی کے دوران قاتل کے بڑے بھائی مصطفیٰ کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ اس دوران محلے والوں نے پولیس کو بتایا کہ شبہ ہے کہ بڑے بھائی مصطفیٰ نے یہ قتل کیا ہے اور چھوٹا بھائی بلال ڈر کر فرار ہوگیا ہے۔ جس پر پولیس نے مدعی کو کہا کہ اپنے چھوٹے بھائی بلال کو پیش کرے تو اس کی جان چھوٹ جائے گی۔ ہفتہ اور اتوار کی شب بلال جونہی ماں سے ملنے گھر آیا، بڑے بھائی نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس نے چھاپہ مار کر اسے گرفتار کرلیا۔ ملزم نے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔
رضویہ تھانے میں موجود 16 سالہ ملزم محمد بلال کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ… ’’مجھے باپ کی طرف سے اتنی چاہت ملی کہ ماں اور دیگر بہن بھائی جلتے تھے اور مجھے باپ کا لاڈلا کہتے تھے۔ میں نے سات جماعت تک تعلیم حاصل کی اور پھر پکوان کی دکان پر کام کرنے لگا۔ ماں اور بڑے بھائی طعنے دیتے تھے کہ باپ کے لاڈلے کام کاج میں دل لگائو، تعلیم حاصل کرنا تمہارے بس کی بات نہیں۔ ہمارا تین منزلہ اپنا گھر ہے۔ گھر میں زیادہ جھگڑے چار ماہ قبل شروع ہوئے اور ایک رات جھگڑے کے بعد باپ نے میری ماں کو طلاق دے دی۔ ماں روتی پیٹتی نچلی منزل میں شفٹ ہوگئی۔ میں زیادہ وقت باپ کے پاس رہتا تھا۔ رات کو بھی ادھر ہی سوتا۔ میرا باپ پھر بھی ماں سے گالی گلوچ کرتا تھا۔ گھر میں آئے روز شور شرابہ ہوتا تھا۔ روز روز کے جھگڑے سے میرا دماغ پک گیا تھا اور ذہنی طور پر دباؤ میں آگیا تھا کہ جس باپ کو میں چاہتا ہوں، وہ میری ماں کی خوشیوں کا قاتل ہے۔ لہٰذا اس سے بدلہ لینا ہوگا۔ میں چند روز قبل بھینس کالونی گیا تھا کہ باڑے پر کام کروں گا اور ادھر ہی رہوں گا۔ وہاں سے میں ایک بڑی سی چھری لے کر گھر آگیا۔ چار روز قبل رات کو باپ کے کمرے میں گیا تو وہ سویا ہوا تھا۔ اس دوران علاقے کی بجلی گئی ہوئی تھی۔ میں نے باپ کو سوتے دیکھا تو موقع اچھا جانا اور اپنے کمرے سے چھری نکال کر لایا اور باپ کے سینے پر دو وار کئے۔ ماں کے طعنوں نے اس قدر ظالم بنا دیا تھا کہ اس وقت مجھے ذرا برابر دکھ نہیں ہوا۔ زخمی ہونے کے بعد باپ اٹھ گیا اور گالی دے کر پکڑنے پیچھے میرے بھاگا تو میں چھری پھینک کر بھاگ گیا۔ یہ قتل ماں کی محبت میں کیا اور کوئی دکھ نہیں ہے۔ وہ میری ماں کے سکون کا قاتل تھا۔ اس کو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا۔ مجھے پھانسی دو یا دوسری سزا دو، مجھے ڈر نہیں ہے۔ ہفتے کی رات کو گھر آیا تھا کہ ماں سے مل آؤں تو پولیس نے پکڑ لیا۔ یہ دو دن لیاری میں دوستوں کے ساتھ رہا تھا‘‘۔
ملزم بلال کی ماں جو طلاق کے بعد بھی جلیل کی بیوہ کہلانے پر مصر تھی، اس کا کہنا تھا کہ اس کا مذہبی گھرانہ ہے۔ جس میں خواتین اور بچیوں کے نام نہیں بتائے جاتے۔ اس نے بتایا کہ بلال شروع سے ہی باپ کے لاڈ پیار میں بگڑ گیا تھا اور سات جماعت تک پڑھ سکا۔ اس کے سات بچے ہیں۔ بلال بیٹوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ تین بیٹیاں ہیں، جن میں ایک شادی شدہ ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مقتول شوہر گالی گلوچ کرتا تھا۔ شادی کے 28 سال بعد طلاق دی۔ اس کے باوجود وہ بچوں کے مستقبل کے لئے اسی عمارت میں رہ رہی تھی۔ ایک سوال پر بتایا کہ پہلی بار پولیس گھر آئی ہے۔ ورنہ اس کے گھر کی سیڑھیاں محلے کے مردوں نے بھی نہیں چڑھی تھیں۔ اس نے کہا کہ وہ بیٹے سے ملنے جایا کرے گی کہ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہے۔ اس نے قتل جیسا جرم کیا ہے۔ فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ بحیثیت ماں، بیٹے کو قتل کی شہ نہیں دی، بلکہ شاید میاں بیوی کے جھگڑوں نے بلال کو ایسے فعل پر مجبور کیا۔
ایس ایچ او رضویہ سوسائٹی سب انسپکٹر محمد نواز بروہی کا کہنا ہے کہ قاتل کم عمر تھا اور ہمیں اندازہ تھا کہ ماں سے ملنے ضرور آئے گا۔ آلہ قتل بچے کی نشان دہی پر مل گیا ہے۔ اس نے اعتراف کرلیا ہے کہ گھریلو اختلاف سے تنگ آکر اشتعال میں باپ کو قتل کیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More