عباس ثاقب
اس دوران میں مانک کا نوکر میرے لئے چائے لے آیا تھا، جو میز پر رکھے رکھے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ میں نے جان بوجھ کر پیالی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔ میں غلیظ انسان کی ناپاک کمائی سے بنی چائے کیسے حلق سے اتار سکتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نابکار کے گلے میں دانت گاڑ کر اس کا لہو پینے کو دل چاہ رہا تھا۔
میں مانک کی عالی شان حویلی سے رخصت ہونے لگا تو وہ مجھے پھاٹک تک چھوڑنے کے لیے آنا چاہتا تھا۔ لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ جیپ کی ونڈ شیلڈ کا شکستہ شیشہ اس کی گھاگ نظروں میں آئے۔ چنانچہ میں نے اصرار کرکے اسے نشست گاہ میں ہی روک دیا۔ اس نے نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کرکے الوداع کہا۔ میں جیپ میں آکر بیٹھا تو رندھیر بھی کہیں سے نمودار ہوکر میرے پہلو میں بیٹھ گیا۔ نوکر نے پھاٹک کھولا اور میں جیپ کو ریورس کر کے باہر لے آیا۔
رات بہت سرد تھی اور جیپ کے سامنے کے کھلے حصے سے آنے والی ہوا کے یخ تھپیڑے مزاج پوچھ رہے تھے۔ لیکن میرا دماغ مانک سے ہونے والی گفتگو میں الجھا ہوا تھا۔ تینوں کشمیری لڑکیوں میں سے بڑی کا ہاتھ سے نکل جانا مجھے رہ رہ کر اذیت دے رہا تھا۔ خدا جانے وہ مظلوم کس حال میں ہوگی۔ کن درندوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہوگی۔ ادھر اس کے بارے میں مانک کے زبان بند رکھنے پر مجھے رہ رہ کر طیش آرہا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں جانے کب ہم شانتی استھان کے سامنے پہنچ گئے۔ میں نے جیپ کھڑی کی اور رندھیر کو اس کے ٹھکانے کی طرف روانہ کر کے خود پیدل ظہیر والے مسافر خانے کی طرف چل دیا۔ میں نے اسے کمرے سے بلوایا اور ایک طرف چل دیا۔
قریب ہی واقع مچھلی سے تواضع کرنے والی ایک طعام گاہ میں ایک الگ تھلگ گوشے میں بیٹھ کر میں نے امرتسری انداز میں تلی ہوئی روہو مچھلی کا آرڈر دیا۔ بیرے کے رخصت ہوتے ہی ظہیر نے بے تاب لہجے میں پیش رفت کا پوچھا۔ میں نے سے تفصیل سے پوری بات بتائی۔ میں جانتا تھا کہ اپنی کشمیری بہن کے بارے میں بری خبر سن کر وہ دکھی اور مشتعل ہوجائے گا۔ میں نے اسے بمشکل ٹھنڈا کیا۔
میں نے اسے دھیمے لہجے میں سمجھایا۔ ’’ظہیر بھیا، میں نے بتایا تھا ناں کہ معاملہ بہت نازک ہے۔ ان بدمعاشوں کا اثر و رسوخ ہمارے اندازوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر یہ لوگ ذرا سے بھی مشکوک ہوگئے تو نہ صرف ہمیں اپنی جان کے لالے پڑجائیں گے، بلکہ باقی دونوں بچیوں کو آزادی دلانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ پہلے یہ کام بخیر و خوبی نمٹ جائے، پھر بڑی والی بہن کو بازیاب کرنے کی بھی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کریں گے۔ تب تک ہمیں تحمل سے کام لینا ہوگا‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، جو آپ کا حکم… ورنہ میری تو یہ رائے ہے کہ اس مانک کی گردن پکڑ کر ایسی پھینٹی لگائیں کہ وہ خودبخود سچ اگلنے پر مجبور ہوجائے‘‘۔
میں نے اسے تسلی دی۔ ’’یار، مجھے تمہاری اس رائے سے کوئی اختلاف نہیں، میں خود بھی اس خبیث دلال کو مزا چکھانا چاہتا ہوں۔ لیکن اس کی تحویل میں موجود دونوں بہنوں کو بخیر و عافیت رہا کراکے محفوظ ٹھکانے پر پہنچانے کے بعد۔ میں نے کہا ناں کہ ہمیں بہت طاقت ور دشمن کا سامنا ہے۔ ساری سرکاری مشینری اس کے اشارے پر ناچتی ہے۔ ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے‘‘۔
ظہیر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’ٹھیک ہے۔ اچھا یہ بتائیں، کیا کل میں بھی آپ کے ساتھ ناری نکیتن جاؤں گا؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو، تمہیں ان لوگوں کی نظروں سے دور رکھوں۔ لہٰذا تم جیپ کے عقبی حصے میں چھپے رہو گے۔ حویلی کے اندر میں اکیلا جاؤں گا۔ میںاپنی دونوں گنیں بھی تمہارے پاس چھوڑ کر جاؤں گا۔ ہو سکتا ہے اندر جاتے ہوئے میری تلاشی لی جائے۔ اگر میں بہت دیر تک واپس نہ آؤں، یا تمہیں کوئی واضح گڑبڑ محسو س ہو تو تم اپنے طور پر مناسب کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہوگے‘‘۔
ظہیر نے میری بات سے اتفاق کیا۔ اس دوران ہم امرتسری مچھلی کے بے پناہ لذیذ ذائقے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اسے لگ بھگ لاہوری مچھلی کے انداز میں ہی دو بار تلا گیا تھا اور وہ اسی طرح کرکری اور مہک دار تھی۔ مچھلی والے کے مطابق اس کی مچھلی کی دور دور تک شہرت تھی اور انبالے، راجپورہ اور سمانا سے بھی لوگ اس کی مچھلی کھانے آتے ہیں۔
صبح کے لیے لائحہ عمل طے کر کے ظہیر کو اس کے ٹھکانے کی طرف روانہ کرنے کے بعد میں شانتی استھان پہنچا تو وہاں معیوب شبانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ مجھے سیڑھیوں پر ہی ایک جوڑا ایک دوسرے میں گتھا آگے آگے چڑھتا نظر آیا۔ اوپر راہداری میں پہنچا تو بہت سے کمروں کے کھلے اور ادھ کھلے دروازوں سے زنانہ اور مردانہ قہقہوں اور اٹکھیلیوں کی آوازیں سنائی دیں۔
میں اپنے کمرے کے دروازے کا قفل کھولنے ہی والا تھا کہ سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا اور حجاب سے عاری حلیے میں ایک جواں سال اور تنومند عورت نے باہر جھانک کر ایک گندی گالی کے ساتھ رندھیر کو آواز دی اور پھر مجھے دیکھ کر بے ہودگی سے آنکھ دبائی۔ میں نے جھینپ کر اس کی طرف سے نظریں ہٹائیں اور قفل میں جلدی سے چابی گھمادی۔ میرا یہ شرمیلا ردِ عمل شاید اسے پُر لطف لگا۔ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگاکر مقامی لہجے والی پنجابی میں کہا۔ ’’کیا ہوا سردارجی، ڈر گئے ہو؟ اکیلا پن دور کرنے کے لیے آجاؤں؟‘‘۔
میں نے اپنی طرف سے دلیری دکھاتے ہوئے پُراعتماد لہجے میں کہا۔ ’’اور جو تیرے پیچھے کمرے میں تیرا گینڈے نما خریدار پلنگ پر پسرا پڑا ہے، اس کا کیا کروگی؟۔
میں نے بات کرکے شاید اس کی دلی خواہش پوری کردی تھی۔ اس نے ایک شرم ناک جملہ اچھال کر بتایا کہ اس کا وہ خریدار اب صبح تک کے لیے انٹا غفیل ہو چکا ہے اور وہ میری خدمت کے لیے دستیاب ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اس سے جان چھڑانے کا کوئی حیلہ تلاش کرتا، رندھیر وہاں پہنچ گیا۔ اس نے اس عورت کو ڈپٹ کر میری جان چھوڑنے اور واپس کمرے میں جانے کو کہا۔ وہ رندھیر کو مغلظات سناتی ہوئی واپس کمرے میں چلی گئی۔ میں نے رندھیر کی طرف سے دارو وغیرہ کی پیشکش مسترد کرکے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ البتہ نیند گہری ہونے تک مجھے اندیشہ ستاتا رہا کہ بے شرمی سے مجھے دعوتِ گناہ دینے والی وہ عورت کسی بھی وقت دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post