محمد فاروق
میرے یہ دونوں بزرگ، چچا اور ماموں، جس مرشد کے مرید تھے، اس کا اصل نام محمود تھا۔ اگر اس نام کے ساتھ آگے یا پیچھے کوئی اور لفظ ہو تو میرے علم میں نہیں۔ ان کا تعلق بونیر کے ایک گائوں شل بانڈئی سے تھا۔ اس لحاظ سے ان کو ’’شل بانڈئی باباجی صاحب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ پشتو میں ہر خاص و عام انہیں، بابا جی صیب پکارتے تھے۔ یہ چشتیہ سلسلے کے بزرگ تھے۔ عمر کا ایک حصہ دربار خواجہ غریب نوازؒ اجمیر میں درگاہ کی خدمت میں گزارا تھا۔ پھر ان کے کہنے کے مطابق، خواجہ اجمیریؒ نے ہی ان کو لوگوں کی اصلاح اور تزکیے کے لیے واپس پاکستان بھیجا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ قریباً صدی سوا صدی کے بعد حضرت شل بانڈئی کی ذات تھی جسے، خود خواجہ اجمیرؒ کے بعد ایک وسیع اور ہمہ گیر حیثیت حاصل ہوئی تھی۔ یہ بقول ان کے، خواجہ اجمیرؒ کی طرف سے عطا کردہ نام ’’مسکین‘‘ اپنے مرید کے لیے استعمال کرتے اور سب کو ’’مسکنان‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
ان کے بڑے بیٹے کا نام گرامی بابر باچا تھا، جو حضرت کے بعد جانشین ہوئے اور بابر باچا کی وفات پر جانشینی کے لیے ان کے بڑے فرزند سردار عالم باچا کے نام قرعہ فال نکلا تھا… جسے براہ راست باباجی صاحبؒ کی طرف سے ہی روحانی طور پر ’’حکم‘‘ سمجھ کر عمل میں لایا گیا تھا۔ غالباً آج بھی وہی گدی نشیں ہیں۔ پشاور اور اردگرد کے علاقوں میں مسکنان یا مریدان کا امیر سابق GTS جنرل منیجر صاحب پشاور ہوا کرتے تھے، جو لا ریب ایک روحانی و نورانی شخصیت تھے۔
ایک زمانہ تھا، کہ باباجی صیبؒ ڈاکٹر محمد رحمن مرحوم کے ہاں منگورہ تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے، جو میرے والد کے کلاس فیلو، میرے چچا جان کے دوست و ساتھی اور باباجی صیبؒ کے مسکین تھے، ان کے لیے کچھ دوائوں کے نسخے لکھے اور کچھ سیمپلز دے کر اور صبح کا ناشتہ کرا کر رخصت کیا۔ میں اسکول کا طالب علم ددھیال سے ملنے سوات گیا تھا، تو چچا جان نے بونیر جانے والی گاڑی میں ہم دونوں، یعنی باباجی صیبؒ اور میرے لیے سیٹ بک کرا کر بونیر بھیجا تھا۔ باباجی صیبؒ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ اس وقت مریدوں اور عقیدت مندوں کا وہ غلغلہ نہیں تھا جو… بعد کے ادوار میں دیکھا گیا۔ چند ہی سال بعد حالت یہ ہو گئی تھی کہ ملک کے کونے کونے سے مریدوں کا تانتا حشرات الارض کی طرح امنڈ پڑا تھا۔ باباجیؒ جہاں کہیں تشریف لے جاتے، آگے پیچھے عقیدت مندوں کی گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں۔ اس بات کا یقین کرنا مشکل نہیں ناممکن ہو جاتا تھا، کہ یہ کسی بادشاہ وقت کا پروٹوکول ہے یا کسی غیر ریاستی شخصیت کا قافلہ۔ ایک حاضر سروس آرمی جنرل کو پورے آرمی پروٹوکول کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے خود میں نے دیکھا تھا۔ جنرل فیض علی چشتی بابا جی صیبؒ کے مریدوں میں شامل بتایا جاتا تھا اور جب زیر عتاب آکر ضیا شہید نے اسے ’’باعزت‘‘ ریٹائرڈ کروایا، تو اسے باباجیؒ کے احکام سے فیض علی چشتی کی سرتابی کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فیض علی چشتی نے حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کی تھی…۔ بات بابا جی صیبؒ کے ذریعے ضیا شہید تک پہنچائی گئی… نہ باباجیؒ کو اور نہ جنرل ضیا کو چشتی کی یہ ادا پسند آئی… اور انہیں فارغ کر دیا گیا۔ واللہ اعلم۔ خود جنرل ضیاء الحق شہید کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بابا جی صیبؒ کے مسکنان میں شامل تھے۔ حضرت کو ملاقات کے مواقع دیتے اور دعائوں اور مشوروں سے مستفید رہتے تھے۔
اتفاقات کا تسلسل:
یہ میری یونیورسٹی کی پڑھائی اور ہاسٹل ون میں قیام کا دور تھا۔ غالباً ایک سال کے امتحانات ختم ہو گئے تھے۔ مطالعے سے کچھ فراغت سی تھی۔ اسی قسم کی فرصت کے دوران ہم اکثر شہر پشاور اور صدر کے چکر لگا کر امتحان میں گزرنے والی ٹینشن اور بوریت کو خدا حافظ کہتے تھے۔ نہ معلوم آج اس خاموش اور نسبتاً سرد رات، عشا کی نماز پڑھ کر، خلاف معمول بوریت ہی نہیں… ایک مخصوص بے قراری محسوس کرنے لگا۔ ایسے موقعوں پر حسب معمول تو ہم یاران ہاسٹل کی طرف چکر مار کر جمعیت کے دوستوں کے ساتھ ’’شرعی گپ شپ‘‘… اور ’’اسلامی آوارہ گردی‘‘ ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ مگر آج کی رات، بے خبری کا ایک عالم… اور دل اجاڑ سا تھا۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ خیال غالب آیا کہ میرے ماموں جان، جو بابا جی صیبؒ کے مرید تھے، ہاسٹل ون کے پیچھے دھوبی گھاٹ کے قریب ان کی رہائش گاہ تھی، ان کے پاس جایا جائے۔ عشا کی نماز ہو چکی تھی۔ میرا معمول کبھی یہ نہیں رہا تھا کہ ان کے ہاں حاضری کروں اور اتنی دیر سے جائوں، مگر آج ایسا ہی کیا۔ ’’اتفاق‘‘ دیکھئے کہ گھر میں داخل ہوا تو ماموں جان کی نظر پڑتے ہی بول اٹھے:… ’’مودودی! چلو اچھا کیا تم آگئے… کل بابا جی صیبؒ تشریف لارہے ہیں۔ سالانہ ذکر اور ’’ختم‘‘ کا پروگرام ہے۔ تم بھی صبح میرے ساتھ چلو‘‘۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں احباب کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں پر روکنا چاہتا ہوں اور اس ہونے والے ’’اتفاق‘‘ کا قصہ صاف کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اور اس قسم کے ’’اتفاقات‘‘ نہ معلوم میرے ساتھ کتنے ہوئے ہیں… کتنے اور ہونے والے ہیں… اور جب بھی میں ان پر سوچتا ہوں… ان کی تہہ میں چھپی کہانیوں اور مصلحتوں پر غور کرتا ہوں۔ تو مجھے یہ ہرگز ہرگز ’’اتفاقات‘‘ نظر نہیں آتیں۔ اگر ان میں سے ہر اتفاق محض ’’اتفاق‘‘ ہی ہے تو ہر اتفاق اتنے منظم، مسلسل اور عین کسی فیصلہ کن موقعے پر پوری باقاعدگی سے وقوع پذیر کیوں ہوتا ہے؟ ابھی یہ حالیہ اتفاق، کہ کم وقت کے باوجود میں مزار رومیؒ پر حاضر ہونے کے لیے بے قرار تھا۔ حاضر ہوا تو پیش آنے والی اس کیفیت ہی کا ثمر ہے کہ ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ ایسی تحریر وجود میں آرہی ہے، جس نے میری بہت ساری یادوں کو ذہن کے نہاں خانے سے نکال باہر کرنے اور انہیں زبان دینے میں میری مدد کی ہے۔ آگے مزید پیش آنے والے ایسے یا ان سے مختلف قسم کے اتفاقات پر آپ نظر رکھیں، تو ہو سکتا ہے کہ میں آپ ہی سے سوال کروں کہ کیا یہ سب ’’اتفاقات‘‘ ہیں؟ بہت ممکن ہے اس مشکل کا کوئی حل ہم مشترکہ طور پر ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوں۔
خیر، حسب پروگرام، اگلے دن حیات آباد میں میجر جلیل نامی بابا جیؒ کے ایک مسکین کے بنگلے پر ہم وارد ہوئے۔ بابا جیؒ تشریف لاچکے تھے… اور ’’ختم‘‘ جاری تھا۔ مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی جو منظر آنکھوں کے سامنے آیا، وہ یہ کہ باہر لان پر کھانا پکانے کے لیے بڑے پیمانے پر دیگیں رکھی گئی تھیں اور آگ جلائی جانے کا ابتدائی مرحلہ شروع تھا۔ مگر سامنے چھوٹے سے برآمدے میں ایک دبلے پتلے سیاہ ریش شخص، جس نے قمیض اتاری تھی، صرف شلوار میں ملبوس تھا، تین چار آدمیوں نے بازوئوں سے پکڑا تھا، وہ جب اچانک ’’ھو‘‘ کی چیخ مارتا، تو آن واحد میں اپنے آپ کو ان تین چار آدمیوں کی گرفت سے آزاد کراتا اور اچھل کر اتنی اونچی چھلانگ مارتا کہ اس کا سر ٹھیک برآمدے کی چھت سے جا ٹکراتا۔ ہمیں اسی برآمدے سے گزر کر سامنے کے بڑے دروازے میں سے اندر داخل ہونا تھا۔ میں کانپتے اور لرزتے قدموں کے ساتھ جو آگے بڑھا، تو برآمدہ کراس کرنے اور اندر داخل ہونے سے پہلے کم از کم دو بار اس بندے نے ’’ھو‘‘ کے نعرۂ مستانہ کے ساتھ اچھل کر چھلانگ لگانے اور چھت کے ساتھ ٹکرا کر اپنے بے بس مددگار ساتھیوں کی گرفت میں واپس آنے کا مظاہرہ کیا۔ ماموں جان میرے ساتھ اندر داخل ہوتے ہوئے اور رشک کے انداز میں اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگے:
’’کیا خوب ذکر ہے!‘‘
’’ذکر؟‘‘
ہم اندر دائیں طرف ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے تو فرش پر ایک بڑا دستر خوان بچھا تھا۔ لوبیا کے ہزاروں دانے اس پر ترتیب سے بکھیرے گئے تھے۔ باباجیؒ ایک سرے پر سامنے تشریف فرما تھے۔ قریباً تیس چالیس کے قریب مریدان اس ہال میں… اور باقی بہت سارے دوسرے کمروں میں بھی ان لوبیا کے دانوں کے ساتھ تسبیحات کے ورد میں مصروف تھے۔ وقفے وقفے سے باہر برآمدے میں موجود صاحب، اور کچھ دوسرے کمروں سے بھی… ’’ھو‘‘ کی صدائیں بلند ہوتیں… جو موجود خاموشی کو توڑ دیتیں… ورنہ ماحول ایک مکمل سکوت کے نرغے میں تھا۔ ہم داخل ہوئے۔ ماموں جان بابا جیؒ کی طرف آگے بڑھے۔ انہوں نے دانوں سے سر اوپر اٹھا کر جب ماموں جان کو دیکھا، تو کچھ کہے بغیر ان کو بالوں سے پکڑ کر ان کا سر اپنی گود کی طرف جھکا کر دائیں ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر ایک مناسب زور کا چانٹا مارا۔ اس پر سارے مریدان عش عش کرنے لگے… اور اسے بابا کی طرف سے ماموں کے لیے ایک خصوصی محبت کی نشانی کے طور پر دیکھا گیا۔
پھولوں کی جھولی:
آپ جب بابا جیؒ کے کسی مرید سے معانقہ کرتے، تو اس کے سینے میں دل اتنے زور سے دھڑکتا کہ آپ محسوس کرتے، کوئی چیز آپ کے سینے کو ہتھوڑوں سے مار رہی ہے۔ اگر یہ ’’دل‘‘ کی حرکت تھی۔ اور واقعی تھی بھی دل کی حرکت… کہ سینے میں متحرک عضو صرف یہی دل ہے… تو اس سوال کا جواب آج تک میں تلاش کرنے سے قاصر رہا۔ کہ جب دل اپنی معمولی کی حرکت سے اس قدر تیز حرکت شروع کر دے۔ اور یہ سلسلہ محض چند منٹوں کے لئے نہیں… گھنٹے بھر یا اس سے بھی زیادہ وقت کے لئے ہو۔ تو اس رئیس الاعضا کی اس اہم ذمہ داری کا کیا بنے گا، جو یہ زندگی کا سلسلہ قائم رکھنے کے لئے ایک مخصوص، متوازن اور متعین رفتار سے حرکت کرنے کی پابندی کے ساتھ نبھاتا ہے؟ اسے بابا جیؒ اور مریدان ’’ذکر‘‘ کہتے تھے۔ یہ ہر مرید کی بیعت ہوجانے کے بعد اس پر جاری ہو جاتا تھا۔ کسی پر تین چار مہینوں کے اندر اندر، کسی کو سال یا ڈیڑھ دو سال بھی اس کے لئے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ بعض پر ذکر کے جاری نہ ہونے سے وہ پریشان ہو جاتے تھے، اور وہ باقاعدہ بابا جیؒ سے ذکر کے اجرا کے لئے دعائیں کرواتے تھے۔ چونکہ اس کا جاری ہونا اور مقدار کے لحاظ سے اس کے اندر ’’شدت‘‘، مسکین کے اخلاص کی نشانی اور معیار سمجھا جاتا تھا، اس لئے اس کے لئے ہر مرید کا پریشان ہونا، اور اس کی شدت کو سب کی طرف سے باعث رشک سمجھنا ایک قدرتی امر تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post