علامہ خادم رضوی کی مسجد میں 9دن بعد باجماعت نماز ہوئی

0

نجم الحسن عارف
لاہور ہائی کورٹ نے لاہور کی یثرب کالونی میں واقع علامہ خادم حسین رضوی کی مسجد رحمۃ اللعالمینؐ میں اذان دینے اور باجماعت نماز کی ادائیگی پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے عائد کردہ پابندی ختم کر دی ہے۔ واضح رہے کہ جمعہ 23 نومبر کی شب علامہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد پولیس نے مسجد کو عملاً سیل کردیا تھا اور عدالتی حکم پر نو دن بعد گزشتہ روز اس خانہ خدا میں باجماعت نماز ادا کی گئی۔ تاہم مسجد اور مدرسہ کا محاصرہ اب بھی جاری ہے۔ عدالت عالیہ کے سامنے ہفتے کے روز یثرب کالونی کے رہائشی اور علامہ خادم رضوی کے شاگرد طارق عزیز قادری نے مسجد پر پولیس اور رینجرز کے قبضے اور اذان و نماز پر پابندی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ پیر کے روز اس درخواست کی سماعت ہوئی تو عدالت عالیہ کے سنگل بنچ نے درخواست منظور کرتے ہوئے رینجرز اور پولیس کے درجنوں اہلکاروں پر مشتمل نفری کو فوری طور پر مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ خالی کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ مسجد کے اندر کوئی اہلکار موجود نہ رہے۔ عدالتی فیصلے کے ساتھ ہی سیکورٹی اہلکار مسجد سے چلے گئے اور مسجد رحمۃ اللعالمینؐ میں نماز ظہر ادا کی گئی۔ تاہم کئی رینجرز و پولیس اہلکار وردی اور سول کپڑوں میں نماز ظہر میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ بعدازاں بھی موجود رہے۔ البتہ مسجد کے دروازے پر تعینات رینجرز اور پولیس کے باوردی اہلکاروں کی جگہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے لے لی، جو مسجد میں آنے والے ہر نمازی کی جامہ تلاشی لینے کے بعد ہی انہیں اندر جانے کی اجازت دیتے رہے۔ اس دوران سیکورٹی اہلکاروں نے ظاہراً اپنا محاصرہ مسجد اور مدرسے سے کچھ فاصلے پر منتقل کردیا، لیکن شام تک مسجد اور مدرسے کے اندر اکا دکا اہلکار نظر آتے رہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق علامہ خادم حسین رضوی کے ساتھ گزشتہ پندرہ برس سے بطور پیش امام خدمات انجام دینے والے قاری صفدر کو مسجد میں فرائض امامت انجام دینے کی اجازت دیدی گئی۔ پٹیشنر طارق عزیز کے وکیل احسان عارف ایڈووکیٹ کے مطابق پولیس حکام کو حکم دیا گیا کہ اگر قاری صفدر کسی مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں ہی مسجد میں ذمہ داریاں انجام دینے کا حق دیا جائے۔ پولیس حکام نے اس موقع پر عدالتی استفسار پر وضاحت کی تھی کہ قاری صفدر پولیس کو کسی معاملے میں مطلوب نہیں ہیں۔ تاہم اس سے قبل پولیس نے انہیں امامت پر فائز رکھنے پر عدالت کے سامنے غیر رسمی انداز میں تحفظات پیش کئے اور کہا کہ محکمہ اوقاف سے درخواست کی ہے کہ وہ اس مسجد کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے۔ لیکن عدالت نے پولیس کے اس مطالبے کو مسترد کردیا کہ مسجد کا انتظام محکمہ اوقاف کے سپرد کردیا جائے۔ اس فیصلے سے پہلے عدالت عالیہ لاہور کے ایک رکنی بنچ کے فاضل جج جسٹس مظاہر علی اکبر نے عدالتی نوٹس کے باوجود سی سی پی او کے عدالت میں حاضر نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور وہاں موجود ایس پی پولیس سے کہا کہ سی سی پی او کو دس منٹ کے اندر عدالت میں بلایا جائے ۔ بعدازاں دس منٹ میں سی سی پی او لاہور عدالت میں پیش ہوگئے۔ عدالت عالیہ نے جامع مسجد رحمۃ اللعالمین سے وابستہ بچوں اور بچیوں کے الگ الگ مدارس کو بھی سیکورٹی اہلکاروں سے خالی کرنے کا حکم دیا تاکہ درس و تدریس کا معطل سلسلہ شروع ہوسکے۔
نمائندہ ’’امت‘‘ اس فیصلے کے بعد یثرب کالونی میں جامع مسجد رحمۃ اللعالمینؐ پہنچا تو مسجد کے ہال میں رینجرز اور پولیس اہلکار نماز کیلئے موجود تھے۔ مسجد کا ہال جو کئی دن سے سرکاری اہلکاروں کے رہائشی کمرے میں تبدیل ہوچکا تھا، وہاں ایک استری بھی مسجد کے محراب کے دائیں جانب موجود تھی۔ جبکہ مدرسے کے اندر سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی کی بھی اطلاع ملی۔ لیکن اہلکاروں نے دروازہ اندر سے بند کر رکھا تھا۔ مسجد کے دروازے پر سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار تلاشی کے بعد نمازیوں کو اندر جانے دے رہے تھے۔ علاقے میں کئی روز سے جاری خوف کی فضا کے باعث ظہر کی نماز میں صرف ایک صف ہی مکمل ہوسکی اور اس صف میں بھی رینجرز اور پولیس اہلکار موجود تھے۔ مقامی لوگوں نے مسجد سے باہر آکر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سیکورٹی اہلکاروں کو جب یہ اطلاع ملی کہ پیر کی صبح طارق عزیز قادری کی درخواست کی عدالت عالیہ میں سماعت ہورہی ہے تو شہریوں کو مسجد کے اندر آنے کی اتوار سے ہی اجازت دینا شروع کردی۔ فجر کے وقت بھی ایسا ہوا، تاہم باہر نکلتے ہوئے رینجرز اور پولیس کے اہلکار شہریوں سے اس تحریر پر دستخط لیتے اور انگوٹھے لگواتے رہے کہ مسجد میں اذان اور نماز پر پابندی ختم ہوگئی ہے اور مسجد کو کھول دیا گیا ہے۔ علاقے کے نمازیوں نے بتایا کہ سیکورٹی اہلکار یہ ’’کارروائی‘‘ مسجد سے باہر بھی کرتے رہے تاکہ عدالت میں ضرورت ہو تو علاقے کے لوگوں کے دستخط والی یہ تحریر پیش کرسکیں۔ تاہم ان شہریوں کا کہنا تھا یہ تحریر زبردستی ہی لی گئی۔ کیونکہ ہم سیکورٹی اہلکاروں کو انکار کرکے کوئی نیا رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ باوردی پولیس اہلکار نے نمازیوں کی موبائل سے دوران نماز تصاویر بھی بنائیں۔ اہل علاقہ میں اگرچہ اب بھی خوف پایا جاتا تھا، تاہم گزشتہ دنوں کے مقابلے میں خوف میں کمی آگئی تھی۔ مسجد کی بندش پر عدالت عالیہ میں پٹیشن دائر کرنے والے طارق عزیز قادری نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس نے حالیہ دنوں میں کم از کم دو مرتبہ میرے گھر پر ریڈ کیا اور گھر کے دروازوں کو توڑنے کی کوشش کی۔ زبردستی گھر میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور گھریلو سامان الٹ پلٹ کردیا کہ جیسے کوئی اسلحہ برآمد کرنے کی کارروائی ہو۔ لیکن انہیں سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہ آیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک پولیس علامہ خادم حسین رضوی سمیت کسی بھی سینئر رہنما یا کارکن سے اس کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت نہیں دے رہی۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں صوبائی وزیر قانون سے رابطہ کیا کہ تحریک لبیک کے گرفتار رہنمائوں و کارکنوں کو حکومت کب تک عدالتوں میں پیش کرے گی اور گرفتاریوں کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ اس پر صوبائی وزیر قانون محمد بشارت راجہ نے کہا کہ ’’معاملات تو اب عدالت میں جاچکے ہیں۔ حکومت کا اس سے تعلق نہیں‘‘۔ لیکن جب ان سے کہا گیا کہ ابھی تک کسی بھی زیر حراست فرد کو جس کے خلاف حکومت نے بغاوت و دہشت گردی کے مقدمات بنائے ہیں یا دفعات لگائی ہیں، انہیں پولیس نے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا۔ اس پر وزیر قانون نے کہا کہ ’’میں اس وقت اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں مصروف ہوں۔ البتہ چیک کرکے بعد میں اس بارے میں بتا سکتا ہوں‘‘۔ دوسری جانب صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’’محاصرہ تو ابھی چلتا رہے گا اور آپریشن بھی جاری رہے گا‘‘۔ ان سے پوچھا گیا کہ اس پس منظر میں تحریک لبیک کے قائدین سے حکومت کا کوئی مکالمہ تو نہیں چل رہا؟ انہوں نے کہا کہ اصل میں حکومت کو ساری چیزیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ اس لئے جب تک امن و امان کیلئے مسائل کا اندیشہ ہے، یہ صورتحال برقرار رہے گی۔
پنجاب پولیس کی ترجمان نے ’’امت‘‘ کے اس سلسلے میں سوال پر کہا کہ ’’یہ تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ مسجد میں نماز ادا کرنے اور اذان دینے سے لوگوں کو روک دیا جائے‘‘۔ جب انہیں پچھلے کئی دنوں سے اس حقیقت کے بارے میں بتایا تو ان کا کہنا تھا کسی فرد کو ریاست کے معاملات ہاتھ میں لینے کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی یہ آپریشن جاری ہے۔ حکومت جو احکامات دے گی اس پر پولیس عمل کرتی رہے گی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق تو حکومت نے تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف درج ایف آئی آر سربمہر کردی تھی۔ ایف آئی آر جب تک ’’سیل‘‘ ہے اس وقت تک کسی کو کیسے عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More