نظریاتی صحافت کے علمبردار صلاح الدین کا24واں یوم شہادت
کراچی (اسٹاف رپورٹر)شہید صحافت محمد صلاح الدین کا24 واں یوم شہادت منگل کو منایا گیا۔ اس موقع پر شہر کی مساجد میں ان کے ایصال ثواب کیلئے دعا کرائی گئی۔ ملک کے معروف صحافیوں نے حق گوئی پرشہید کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔سوشل میڈیا پر شہید کا تذکرہ چھایا رہا ۔ ’’تکبیر‘‘ کے بانی محمد صلاح الدین 4 دسمبر 1994 کو شہید کئے گئے تھے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی فسطائیت کو چیلنج کرنے اور ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر انہیں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا۔ محمد صلاح الدین شہید مزاحمتی صحافت کے علمبردار تھے۔ انہوں نے ایم کیو ایم ہی نہیں اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کے اقدامات کیخلاف بھی بھرپور آواز اٹھائی اور اس پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دیا۔ شہید محمد صلاح الدین نے ’’تکبیر‘‘ کے اجرا سے قبل انہوں نے اپنے دور کے بڑے اخباروں میں شمار ہونے والے روزناموں جسارت و حریت میں بھی صحافتی ذمہ داریاں انجام دیں۔ ان کے دور ادارت میں ہی جسارت بڑا اخبار بن گیا تھا اور اسے اپوزیشن کے اخبار کی شناخت محمد صلاح الدین شہید کی مزاحمتی صحافت کی وجہ سے ہی ملی۔ 1983 میں شہید نے ”تکبیر“ کا اجرا کیا تو ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی یہ ملک کا سب سے کثیرالاشاعت ہفت روزہ بن گیا۔ اسی دوران ایم کیو ایم نے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں پنجے گاڑنے شروع کئے اور اپنی دہشت گردی کے ذریعے صحافت کو بھی یرغمال بنالیا تووہ ایم کیو ایم کی فسطائیت اور دہشت گردی کیخلاف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے لسانیت کیخلاف موثر آواز اٹھائی۔ یہی ان کا جرم ٹھہرا اور دہشت گردوں نے بالآخر انہیں شہید کردیا۔ ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے شہید محمد صلاح الدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید محمد صلاح الدین ملک کے ان نابغہ اخبار نویسوں میں سے تھے جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ وہ اس سنہری زنجیر کی کڑی تھے جو مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی و مولانا ظفر علی خان سے جڑی ہوئی ہے۔ شہید باکردار،باوقار شخص تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔وہ جو کہتے اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی ہمیشہ تیار رہتے۔وہ بھٹو کی عوامی آمریت اور ایم کیو ایم کی لسانی آمریت کے دوران انہوں نے قلم کو تلوار کی طرح استعمال کیا ۔جب جنرل ضیا الحق کے دور میں اخبارات پر سنسر نافذ ہوا تو اس کے خلاف سب سے بلند آواز شہید کی ہی تھی۔ انہوں نے جان دیدی لیکن اپنی فکر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہم انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کے تذکرے سے حوصلہ اور ولولہ حاصل کرتے رہیں گے۔سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل و عوامی آواز میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر جبار خٹک نےکہا کہ صلاح الدین شہید بے باک صحافی ہونے کے ساتھ اپنے نظریے، آزادی صحافت و ضمیر کی آزادی کیلئے پوری زندگی ڈٹے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مجھے بھی جیل میں ڈالا گیا تو ان سے جیل کے اندر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔صلاح الدین شہید نڈر صحافی تھے جنہیں اپنے اصولوں ، تحریر و اظہار کی آزادی کی پاسداری پر قائم رہنے کے باعث مشکلات بھی برداشت کرنی پڑیں۔ انہوں نے متحدہ دہشت گردوں کی جانب سے جانی مالی نقصان کی دھمکیوں کی کبھی پروا نہیں کی ۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے سماج کے اندر قوت برداشت کو فروغ دینے عدم برداشت رویے کی نفی کی اور انہوں نے بے خوف و خطر جرات مندی کا مظاہرہ کرتے رہے۔معروف صحافی عطا تبسم نے سوشل میڈیا پر شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان گنے چنے لوگوں میں تھے جو کارکنوں کے مسائل کا حل نکالنے اور مدد کی بھر پور کوشش کرتے تھے ۔انہوں نے ناموس رسالت اور پاکستان کی نظریاتی اساس کیلئے شاندار کردار ادا کیا۔