محمد قاسم
افغان طالبان نے نیٹو سربراہ اور امریکی وزیر دفاع کے بیانات کے بعد مذاکرات معطل کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کا انخلا ہی ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ انخلا کے بغیر کوئی مذاکرات قابل قبول نہیں ہونگے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے نیٹو کے سربراہ اسٹولنس برگ اور امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے ان بیانات کے بعد کہ ’’معاہدہ ہونے کے باوجود افغانستان سے فوج نہیں نکالی جائے گی، فوج امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے افغانستان میں موجود رہے گی‘‘، سخت ردعمل دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان شوریٰ کے اراکین کا شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ نیٹو اور امریکی حکام کے بیانات کے بعد افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بعض حلقے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور وہ کسی کے اشارے پر ایسا کر رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان شوریٰ کے اجلاس میں امریکی وزیر دفاع اور نیٹو کے جنرل سیکریٹری کے بیانات پر طویل غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر امریکہ انخلا پر آمادہ نہیں ہوتا تو افغان طالبان مذاکرات کو معطل کردیں گے۔ کیونکہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بغیر طالبان کو افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی معاہدہ منظور نہیں ہوگا۔ طالبان شوریٰ کے اجلاس میں اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ سخت گیر جنگجو رہنمائوں کو کس طرح ان معاہدوں پر راضی کیا جائے گا۔ تاہم سب اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکی فوج کے انخلا پر تمام جنگجو کمانڈروں کو راضی کیا جا سکتا ہے کہ ان کی جہادی کوششوں کی وجہ سے ہی امریکہ انخلا پر مجبور ہوگیا ہے۔ دوسری جانب طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا ہی طالبان کا بنیادی مطالبہ ہے۔ جب تک امریکہ انخلا نہیں کرے گا، طالبان لڑائی جاری رکھیں گے۔ امریکی و نیٹو حکام کے بیانات مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی اٹھارہ برس سے جاری مزاحمت نے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے ملک پر غیر ملکیوں کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی و نیٹو افواج کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔ کیونکہ افغانستان، افغانوں کا ملک ہے اور افغان عوام ہی فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے اپنے ملک کو کیسے چلانا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان کسی کے لئے خطرہ نہیں ہیں اور نہ ہی افغانوں نے کبھی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ افغانستان میں حکومتی نظام بنانے، پائیدار امن کے قیام اور تعمیر نو کا کام کرنے کی اجازت کسی قابض فوج کو نہیں دی جاسکتی۔ امریکی و نیٹو حکام افغانستان کے اندرونی مسائل سمیت افغانستان کی پالیسیوں میں مداخلت نہ کریں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بیان بازی کریں۔ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے رہنمائوں کو ماضی کے حالات کا جائزہ لینا چاہئے اور جنگ کو طول دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر امریکہ نے جنگ کو طول دیا تو اس سے افغانستان میں خونریزی مزید بڑھے گی اور افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ امریکی افواج مسلسل بے گناہ افغانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ فضائی حملوں اور چھاپوں میں معصوم افراد کو شہید کیا جا رہا ہے۔ طالبان ترجمان کے بقول افغانستان میں طویل جنگ نہ تو امریکہ کے مفاد میں ہے اور نہ ہی افغان عوام کے۔ افغان طالبان جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن طالبان کا بنیادی مطالبہ غیر ملکی افواج کا انخلا ہے۔ اگر امریکہ اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گا تو افغان طالبان مذاکرات جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ دوسری جانب افغان طالبان سے قطر میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے قبل پاکستان، متحدہ عرب امارات، روس، سعودی عرب، قطر اور افغانستان کے دورے پر ہیں۔ ذرائع کے بقول ان کی کوشش ہے کہ ان ممالک کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا جائے۔ زلمے خلیل زاد پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ قطر میں طالبان سے ہونے والے مذاکرات پر حتمی بات چیت کریں گے۔ بعدازاں وہ متحدہ عرب امارات، افغانستان اور دیگر ممالک کے دورے پر روانہ ہونگے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت افغان طالبان نہ صرف ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آرہے ہیں بلکہ ان کے سفارتی تعلقات بھی بہت وسیع ہوگئے ہیں۔ روس اور ایران افغان مسئلے کا ایک حصہ بن گئے ہیں، جس کی وجہ سے اب امریکہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اپنی مرضی کے نتائج ملنا مشکل ہے۔ دوسری طرف امریکی افواج اور طالبان کے ایک دوسرے پر حملے بھی جاری ہیں۔ ذرائع کے بقول ان کارروائیوں کا مقصد ایک دوسرے پر دبائو بڑھانا ہے۔