عمران خان
کورنگی پولیس نے تجاوزات کے خلاف کے ڈی اے کے آپریشن کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ مہران ٹائون کے علاقے میں انہدامی کارروائی کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے والے ملزمان اور لینڈ گریبنگ میں ملوث اصل ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے رشوت کے حصول کیلئے بے گناہ شہریوں کو مقدمات میں فٹ کیا جا رہا ہے۔ کورنگی صنعتی ایریا تھانے میں درج کئے گئے انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں ایک قانونی الاٹی مجید کو لینڈ مافیا کا کارندہ ظاہر کر کے ملزم نامزد کردیا گیا۔ لیکن پولیس کی کارکردگی کا پول اس وقت کھل گیا جب 4 روز بعد ہی چوہدری مجید نامی شہری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پہلی پیشی پر ہی بے گناہ قرار دے کر بری کردیا۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ اصل ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔
مہران ٹائون کے متاثرہ قانونی الاٹیز سے ملنے والی معلومات کے مطابق ایک ہفتہ قبل تجاوزات کیخلاف آپریشن کے دوران مہران ٹائون میں لینڈ مافیا کے کارندوں کے اکسانے پر سینکڑوں علاقہ مکینوں نے پہلے کے ڈی اے کی ٹیم پر حملہ کیا اور بعد ازاں مہران ٹائون میں قائم اسٹیٹ ایجنٹوں کے دفاتر پر حملہ کردیا تھا۔ اس دوران 14 اسٹیٹ ایجنسیوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں تباہ کرنے کے بعد آگ لگادی گئی، شرپسندوں نے لاکھوں روپے کی لوٹ مار بھی کی۔ جبکہ اپنے قانونی پلاٹ پر تعمیرات کرنے والے شہری چوہدری مجید کے پلاٹ پر حملہ کرکے وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور دیواریں گراکر وہاں آگ لگا دی تھی۔ ذرائع کے مطابق ہنگامہ آرائی شروع ہوتے ہی کے ڈی اے کی ٹیم کو مہران ٹائون کے اسٹیٹ ایجنٹوں اور چوہدری مجید نے اپنی گاڑیوں میں بٹھاکر علاقے سے نکال دیا تھا۔ مہران ٹائون میں جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ رات تک جاری رہا۔ لیکن کورنگی صنعتی ایریا تھانہ قریب ہونے کے باجود پولیس دو گھنٹے بعد بھی موقع پر نہیں پہنچی تھی۔ بعد ازاں رینجرز اور ریزور پولیس کے کمانڈوز کو روانہ کیا گیا، جن کے پہنچتے ہی شرپسند منتشر ہوگئے اور علاقے میں صورتحال پر قابو پالیا گیا۔ تاہم اس وقت تک مہران ٹائون میں چوہدری مجید کا پلاٹ اور 14 اسٹیٹ ایجنسیوں کے دفاتر اور ان کے سامنے کھڑی متعدد کاریں جلادی گئی تھیں۔ لینڈ مافیا کے اکسانے پر جن اسٹیٹ ایجنسیوں کو تباہ کرکے لاکھوں روپے مالیت کا سامان لوٹا گیا، ان میں نیو سہون اسٹیٹ ایجنسی، سرگودھا اسٹیٹ ایجنسی، ماشاء اللہ اسٹیٹ ایجنسی، الفلاح اسٹیٹ ایجنسی، خان اسٹیٹ ایجنسی، نیشنل اسٹیٹ ایجنسی، ایچ ایچ فضل اسٹیٹ ایجنسی، مدثر اسٹیٹ ایجنسی، شان اسٹیٹ ایجنسی، گلستان اسٹیٹ ایجنسی، الشہباز اسٹیٹ ایجنسی، اے ایس انٹر پرائزرز، پاکستان اسٹیٹ ایجنسی اور بسمہ اللہ اسٹیٹ ایجنسی شامل ہیں۔
اس واقعے پر کورنگی صنعتی ایریا تھانے کے ایس ایچ او صابرخٹک اور ڈی ایس پی فتح محمد کا ابتدائی طور پر میڈیا سے کہنا تھا کہ کورنگی صنعتی ایریا کے علاقے مہران ٹائون میں غیر قانونی تعمیرات مسمار کرنے کیلئے منگل کی دوپہر کے ڈی اے کا عملہ بھاری مشینری کے ہمراہ پہنچا اور غیرقانونی گھروں کو مسمار کرنے کی کوشش کی، تو علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد نے احتجاج شروع کردیا۔ اسی دوران مشتعل افراد نے کے ڈی اے کے عملے پر پتھرائو کردیا، جس کے نتیجے میں 3 اہلکار زخمی ہوئے۔ جس پر پولیس نے فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کرنے والے ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں لیکر اسلحہ بھی برآمد کیا اور ان کے خلاف کے ڈی اے اور پولیس کی مدعیت میں مجموعی طور پر تین مقدمات درج کئے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حیرت انگیز طور پر جلائو گھیرائو میں ملوث بعض افراد کو ایک این جی او کی خاتون عہدیدار کی آمد کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ جبکہ جن قانونی الاٹیز اور اسٹیٹ ایجنسیوں کا نقصان کیا گیا تھا، پولیس نے ان کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ سب سے پہلے چوہدری مجید کے مزدوروں کو گرفتار کیا گیا اور پھر چوہدری مجید کو بھی انسداد دہشت گردی کے مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا۔ دوسری جانب جن اسٹیٹ ایجنسیوں کو تباہ کیا گیا تھا، ان کے مالکان کی جانب سے حملہ آوروں کے خلاف درخواستیں دینے کے باجود پولیس نے ان کی مدعیت میں مقدمات درج نہیں کئے۔
اس معاملے پر جب کے ڈی اے کے اعلیٰ افسران نے مہران ٹائون اور کورنگی صنعتی ایریا تھانے کا دورہ کیا تو ڈائریکٹر انکروچمنٹ کے ڈی اے پریل اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر انکروچمنٹ خرم شہزاد نے ایس ایچ او صابر خٹک اور ڈی ایس پی فتح محمد کو واضح طور پر کہا کہ پولیس نے کے ڈی اے افسران کو مدعی بناکر مقدمات تو درج کرلئے ہیں، تاہم جس شہری چوہدری مجید کو کیس میں نامزد کرکے گرفتار کیا ہے، اس کا ہنگامہ آرائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ شہری کے ڈی اے کی منظوری اور ہائی کورٹ کے حکم پر اپنا مکان بنا رہا تھا، جسے لینڈ مافیا کے کارندوں نے علاقہ مکینوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ تاہم اس کے باجود ایس ایچ او صابر خٹک اور ڈی ایس پی فتح محمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور چوہدری مجید کو لاک کردیا گیا۔ جبکہ ایس پی کورنگی تمام صورتحال سے باخبر ہونے کے باجود ماتحت افسران کی سائیڈ لیتے رہے۔ جبکہ اگلے پانچ روز تک پولیس نے نہ تو حملہ آوروں میں سے کسی ملزم کو گرفتار کیا اور نہ ہی متاثرین کی درخواستوں پر کوئی کارروائی کی۔ لیکن گزشتہ روز جب چوہدری مجید کو پولیس نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو عدالت کی جانب سے پولیس کی سخت سرزنش کی گئی اور چوہدری مجید کو بے گناہ قرا ر دے کر بری کردیا گیا۔ حملہ آوروں اور اصل لینڈ مافیا کارندوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر متاثرہ اسٹیٹ ایجنٹوں اور چوہدری مجید کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی کو متعلقہ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کیلئے درخواستیں دی گئیں۔ تاہم جب اس معاملے پر ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ نے تفصیلی رپورٹ طلب کی تو ایس ایچ او صابر خٹک چھٹیوں پر چلے گئے، جبکہ ان کی چھٹی کی درخواست ابھی تک منظور نہیں ہوئی ہے ۔
’’امت‘‘ سے گفتگو میں متاثرین چوہدری مجید، محمد اسلم، ملک عمران، محمد شہباز، محمد علی، ریحان، شیخ مدثر، خورشید خان، محمد حسین، زر محمد، غلام مرتضیٰ، محمد پناہ، ملک محمد نجیب اللہ اور خالد حسین کا کہنا تھا کہ مہران ٹائون منصوبہ بیرون ملک موجود اورسیز پاکستانی شہریوں کیلئے قائم کیا گیا تھا، جہاں وہ پلاٹ خرید کر سرمایہ کاری کے علاوہ اپنے لئے مکان بنا سکتے تھے۔ تاہم اس علاقے میں لینڈ مافیا کے کارندے سرگرم ہوگئے، جنہوں نے زمینو ں پر قبضے کرکے شہریوں کو کچے اسٹامپ پیپرز پر پلاٹ فروخت کئے، جس کے بعد یہاں سینکڑوں غیر قانونی مکان تعمیر کئے گئے۔ تاہم اب کے ڈی اے نے آپریشن شروع کیا ہے تو لینڈ مافیا کے کارندوں نے خود کو بچانے کیلئے مکینوں کو اکسانا شروع کردیا کہ مہران ٹائون میں موجود اسٹیٹ ایجنٹ اس آپریشن کے ذمے دار ہیں، کیونکہ یہی ایجنٹ فائل والے پلاٹوں کی قانونی خرید و فروخت کرتے ہیں اور کے ڈی اے کو غیر قانونی پلاٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی فتح محمد کے حوالے سے متاثرین کا کہنا تھا کہ ان افسران نے پہلے مکان بنانے والوں سے 50 ہزار روپے وصول کئے اور بعد ازاں ان کے خلاف کارروائی بھی کردی۔ حالانکہ 50 ہزار روپے اس لئے گئے تھے کہ قانونی پلاٹوں کے مالکان کو تعمیرات کے دوران لینڈ مافیا کی سرگرمیوں سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔