تحریک لبیک کے80سالہ عالم جیل میں انتقال کرگئے

0

عظمت علی رحمانی
تحریک لبیک پاکستان کے 80 سالہ اسیر رہنما اور پیر افضل قادری کے ماموں علامہ محمد یوسف سلطانی حاصل پور جیل میں انتقال کر گئے۔ ہزاروں طلبہ کے استاد و بزرگ عالم دین کو گجرات میں گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انتہائی علیل ہونے کے باوجود انہیں اسپتال منتقل کیا گیا نہ گھر سے دوائیں پہنچانے کی اجازت دی گئی۔ مرحوم کے چاروں بیٹے عالم دین ہیں۔ جبکہ ایک بھائی نے بخاری شریف کی شرح بھی لکھ رکھی ہے۔
ملک بھر سے جہاں ہزاروں کی تعداد میں تحریک لبیک پاکستان کے قائدین، علما، کارکنان اور ہمدردوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہیں دو ہفتے قبل ضلع گجرات کے نواحی علاقے مہرو کھوکھر کے مذہبی خاندان سے تعلق رکھنے والے 80 سالہ بزرگ عالم دین علامہ محمد یوسف سلطانی کو بھی ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جو شدید علالت کے بعد حاصل پور جیل میں انتقال کر گئے۔ مرحوم علامہ یوسف سلطانی پیر افضل قادری کے سگے ماموں تھے۔ ٹی ایل پی کے اسیر سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری کے بیٹے پیر عثمان افضل قادری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میرے والد محترم کے تین ماموں ہیں۔ ان میں حضرت مولانا محمد یوسف سلطانی صاحب بڑے تھے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر مولانا یونس صاحب ہیں اور تیسرے نمبر پر مولانا ابراہیم ہیں۔ تینوں بھائی اپنے والد کی طرح عالم دین ہیں اور شروع سے ہی دینی مدارس سے وابستہ اور اپنے اپنے مدارس چلا رہے ہیں۔ مولانا محمد یونس کھاریاں کے موضع نصیراں میں ہوتے ہیں اور انہوں نے بخاری شریف کی شرح بھی لکھ رکھی ہے۔ جبکہ مولانا محمد یوسف سلطانی ضلع گجرات کے موضع لکھن والا میں اپنا مدرسہ رضویہ چلاتے تھے۔ وہ نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کبھی مرغن غذا نہیں کھائی۔ عمر کے پیش نظر کمزوری بھی انتہا درجے کی تھی۔ جبکہ شدید بیمار بھی تھے جس کے باعث ادویات لے رہے تھے۔ انہیں گجرات میں اپنے گھر سے پولیس اٹھاکر لے گئی تھی۔ لیکن انہیں گجرات جیل کے بجائے حاصل پور جیل میں رکھا گیا۔ ان کے بیٹے انہیں ادویات دینے کے لئے گئے تو پولیس نے انہیں ادویات بھی نہیں پہنچانے دیں‘‘۔ ایک سوال پر پیر عثمان افضل قادری نے بتایا کہ ’’مولانا محمد یوسف سلطانی کے پسماندگان میں چار بیٹے ہیں اور الحمد اللہ چاروں عالم دین ہیں۔ ان میں پروفیسر محمد الیاس استاد ہیں۔ جبکہ مولانا سجاد رضوی برطانیہ میں مبلغ ہیں۔ مولانا محمد یوسف سلطانی کی میت جیل سے لانے کے لگے تو ہزاروں کارکنان جمع ہو گئے۔ لبیک لبیک کے نعرے لگاتے ہوئے میت کو گھر لایا گیا، جہاں مولانا کے ہزاروں طلبا جمع تھے۔ مولانا کی نماز جنازہ ان کے بیٹے مولانا سجاد رضوی نے پڑھائی، جس کے بعد ان کی تدفین آبائی قبرستان میں ان کے والد کے پہلو میں کی گئی‘‘۔
تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمن نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کی بدقسمتی میں ایک اور اضافہ ہوا ہے کہ 80 سالہ سفید ریش معمّر عالم دین کا جیل میں انتقال ہوا۔ تحریکِ لبیک پاکستان کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے پنجاب پولس نے حافظ آباد کے ایک 80 سالہ معمّر عالم دین و حافظ و قاری علامہ محمد یوسف سلطانی، جن کی ساری عمر درس و تدریس میں گزری، کو بیماری کے عالم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا۔ نہ علاج کی سہولتیں فراہم کیں اور نہ انہیں آزادکیا گیا۔ وہ تحفظِ ناموس شانِ رسالت اور ختمِ نبوت کے جرم میں جیل میں انتقال کر گئے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ایک ضعیف العمر عالمِ دین نے کیا قانون شکنی کی، کون سا جرم کیا۔ اس کا وبال یقیناً حکومتِ وقت پر نازل ہوگا‘‘۔ مفتی منیب الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں نہایت ذمہ داری کے ساتھ متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی صاحبِِ اقتدار مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں چلے، بابا فریدالدین گنج شکر کے مزار پر جھاڑو لگائے یا ان کی چوکھٹ کو بوسا دے، لیکن اس کے اقتدار میں ایک متدیّن، معمّر عالم دین جنہوں نے ہزاروں شاگرد پیدا کیے اور جن کے فرزند عالم دین علامہ سجاد رضوی برطانیہ میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں، جیل میں علاج سے محروم رہتے ہوئے واصل بحق ہوگئے۔ تو عقیدتوں کے ان مظاہر کی بنا پر ایسی زیادتیوں کے مواخذے سے عنداللہ برأت نہیں ہو سکتی۔ شاید اس معمر عالم دین کا جرم یہ قرار پایا ہو کہ وہ علامہ پیر محمد افضل قادری کے ماموں ہیں‘‘۔ مفتی منیب الرحمن نے حکومت سے ہونے والے وعدے کے بارے میں بتایا کہ ’’ہم سے وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے اہم اداروں کے ذمہ داران کی موجودگی میں وعدہ کیا تھا کہ جن گرفتار شدگان پر سنگین الزامات نہیں ہیں، انہیں ذاتی مچلکوں پر فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔ لیکن صد افسوس کہ اس وعدے کا ایفا نہ ہوا۔ قانون کے قاتل محلات میں عشرتیں کر رہے ہیں، لیکن مجال ہے کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے یا میڈیا ان کے بارے میں صدائے احتجاج بلند کرے‘‘۔ مفتی منیب الرحمن نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری استدعا ہے کہ کیا ایک 80 سالہ سفید ریش معمر عالم دین اس بات کے حق دار نہیں تھے کہ انہیں چھوڑ دیا جاتا، یا کم از کم علاج کی سہولت فراہم کی جاتی۔ کیا اس کی بابت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہمارے نظامِ عدل سے کوئی سوال نہیں ہوگا؟ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کریک ڈاؤن میں کس طرح کے بے قصور اور بے ضرر لوگوں کو کارروائی دکھانے کے لیے جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ کیا اس پر عوام کے دلوں میں اہلِ اقتدار کے لیے محبتوں کے جذبات موجزن ہوں گے؟ یہی تو سبب ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ختمِ نبوت اور تحفظ ناموس شان رسالت کے اسیروں کے حق میں جلوس نکل رہے ہیں اور مطالبات کیے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے مقامِ عبرت ہے۔ ہم اہلسنت والجماعت پُرامن لوگ ہیں۔ ہماری امن پسندی کو کمزوری سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ حکومت وقت کے نفرت انگیز اقدامات ملک میں انتشار کو مزید ہوا دینے کا سبب بنیں گے۔ خدانخواستہ پانی سر سے اونچا ہوگیا تو حالات بے قابو بھی ہو سکتے ہیں، جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومت اور اس کے اداروں کو ہوگا۔ لہٰذا ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس طرح کے کسی اور سانحے کے رونما ہونے سے پہلے تمام گرفتار شدگان کے معاملات پر نظر ثانی کی جائے اور جن بے قصور و بے ضرر لوگوں کو گنتی پوری کرنے کے لیے جیلوں میں ڈالا گیا ہے، انہیں ذاتی مچلکوں پر رہا کیا جائے۔ ہم ائمہ و خطبائے کرام سے اپیل کرتے ہیں کہ علامہ حافظ قاری محمد یوسف سلطانی مرحوم کے ایصالِ ثواب اور مغفرت کے لیے مساجد میں دعائیں کی جائیں‘‘۔
تحریک لبیک کراچی کے رہنما قاضی عباس کا کہنا ہے کہ ’’مفتی یوسف سلطانیؒ کی شہادت بدترین دہشت گردی ہے۔ حکمران اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے پاکستانیوں کی لاشیں گرا رہے ہیں۔ عمران خان، فواد چوہدری اور وزیر داخلہ شہریار آفدریدی اس بہیمانہ قتل میں ملوث ہیں۔ حکمرانوں کو بہت جلد عدالتی کٹہرے میں لائیں گے۔ اس سلسلے میں لیگل ایڈ کمیٹی سے مشاورت جاری ہے‘‘۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More