محمد فاروق
لوبیا کے دانوں پر ورد کا سلسلہ ختم ہوا۔ کچھ آنے والوں کی بابا جیؒ سے علیک سلیک بھی ہوگئی۔ میرے بارے میں ماموں جان کی خواہش تھی کہ میں آج ہی بیعت کی بندھن میں بندھ جاؤں۔ میں بابا جیؒ کی بائیں طرف ان کی نظر سے تھوڑا بچ کر مگر بالکل قریب اس طرح بیٹھا ہوں کہ میں ان کے چہرے کے تمام تاثرات، ان کی گفتگو، حتیٰ کہ سانس لینے کی آواز تک سن سکتا ہوں۔ البتہ اگر وہ میری طرف دیکھنا چاہیں تو ان کو بائیں طرف مڑ کر اور گردن گھما کر دیکھنا ہوگا۔ اس دوران بات چلی کہ ’’حاجی بابا‘‘… جو بابا جیؒ کے بڑے بھائی تھے، دو تین دن پہلے بیمار ہوئے تھے اور انہیں سیدو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور وہ اب تک اسپتال میں ہی ہیں۔ مرید ایک دوسرے سے کھسر پھسر کے انداز میں پوچھتے رہے… کہ کیا واقعی حاجی بابا بیمار ہیں؟ کیا واقعی وہ اسپتال میں ہیں؟… بابا جیؒ خاموش رہے۔
میرے ذہن میں خیال آیا کہ بابا جیؒ آج ہی پشاور تشریف لائے ہیں۔ ان کو بھائی کی صحت کے بارے میں معلوم ہوگا۔ البتہ اگر پوچھا گیا تو بابا جیؒ یہی فرمائیں گے کہ: ہاں… وہ ٹھیک ہیں… یا ٹھیک نہیں ہیں۔ کہ میں تو ان کو دیکھ رہا ہوں۔ یا کم از کم بابا جیؒ کسی ’’روحانی مشاہدے‘‘ کے اعتماد پر ہی کوئی ایسی بات کریں گے… کہ مرید متاثر ہوکر واہ واہ کرلیں…!
میں اپنے خیال میں… سوچتا رہا کہ یہ ان پیروں کا آزمودہ طریقہ واردات ہے…! اتنے میں ایک مرید حاضر ہوکر دعا سلام کے بعد عرض کرتا ہے:
’’ہم نے سنا تھا کہ حاجی بابا بیمار ہیں۔ اب ان کی طبعیت کیسی ہے؟‘‘
بابا جیؒ ایک توقف کے بعد:
’’ان کی طبعیت تین دن پہلے ناساز ہوئی تھی۔ پھر ان کو اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے انہیں داخل کرایا۔ میری تو کوئی ملاقات ان سے نہیں ہوئی۔ البتہ ان کے ساتھ اسپتال میں موجود لڑکوں میں سے دو، رات کو گھر واپس آئے تھے تو ان کا کہنا یہ تھا کہ اب وہ پہلے سے بہتر ہیں۔ مجھے کوئی علم نہیں۔ یہ ان کی زبانی ہے، کہ وہ اب بہتر ہیں…! ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ اب ٹھیک ہیں۔… (تکرار کے ساتھ)۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ پہلے سے اب بہتر ہیں… میں نے بیماری کے بعد انہیں نہیں دیکھا‘‘۔
دیکھا آپ نے؟ بابا جیؒ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ خود نہیں جانتے… بلکہ دوسروں کی زبانی بیان کرنی والی حقیقت بتا رہے ہیں۔ یہ میری اس ’’بدگمانی‘‘ کا جواب تھا، کہ پیر لوگ۔ کسی نہ کسی طرح شوشہ چھوڑ کر سادہ لوح مریدوں کو پھنسانے ہی کے چکر میں ہوتے ہیں…!
پھر میرے دل میں خیال آیا ’’ذکر‘‘ کے نام پر جو اچھل کود جاری ہے… یہ کیسا ذکر ہے؟ اس کی وجہ سے مرید نماز میں بھی زور سے نعرہ لگا کر دوسروں کو ’’ڈسٹرب‘‘ کرتا ہے… خود بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے… یہ لوگوں کو کس مصیبت میں ڈالا گیا ہے؟‘‘۔
بابا جیؒ گویا ہوئے:
’’یہ ذکر سلطانی ہے (اشارہ ہے سلطان الہند خواجہ اجمیرؒ کی طرف)… ان کی محبت ہے۔ کافر، منافق اور مسلمان… سب جب اسے دیکھتے ہیں تو حیران ہوجاتے ہیں۔ ہم خود حیران ہیں… اور نہیں سمجھتے کہ یہ کیا ہے۔ مصیبت نہیں ہے، ذکر سلطانی ہے… جب کسی پر آجاتا ہے تو اسے اٹھا لیتا ہے… ہم بے بس ہیں… اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے … بس…!‘‘
میرے دوسرے سوال کا جواب مل گیا…!
میرے دل میں ایک اور خیال آتا ہے۔ عجیب بات ہے۔ عام طور پر بزرگ لوگ بغیر کالر اور بغیر کف والی آستینوں کے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ بابا جیؒ مجھے کافی ’’ماڈرن‘‘ لگتے ہیں۔ ان کے کپڑوں میں قمیص کے باقاعدہ کالر ہیں۔ آستینیں بھی کف والی ہیں۔ کپڑوں کا رنگ بھی نوجوانوں کے لباس کا ہے۔ معلوم ہوتا ہے بابا جیؒ انگریزی لباس اور اسلامی لباس کے چکروں میں نہیں پڑتے۔ یہ تھا میرے ذہن کا خیال…۔
بابا جیؒ کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آتی ہے… کہنے لگے
’’تم پشاور والے مسکینان خوش قسمت ہو، کہ تمہارے بزرگ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ تم بھی اچھے ہو… (اشارہ ہے جی ٹی ایس منیجر صاحب کی طرف جو پشاور کا امیر ہے)۔ رات عشا کی نماز تک مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں پشاور آئوں گا۔ نہ پشاور آنے کا کوئی پروگرام تھا۔ مگر بعد میں جب منیجر صاحب، ختم میں میری شرکت پر اصرار کرنے لگا… (مطلب، روحانی طور پر بابا سے شرکت پر اصرار کرنے کی طرف اشارہ ہے)… تو میں منیجر صاحب کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ رات گئے بہت دیر جب میں نے بابر (بابا جیؒ کے فرزند) سے کہا کہ مجھے صبح سویرے فجر کی نماز سے بھی پہلے پشاور کے لئے نکلنا ہے، تو گھر والوں نے بتایا کہ تمہارے سارے کپڑے میلے ہیں۔ ہم کل ہی کپڑے دھونے والے ہیں۔ اگر آپ پہلے بتاتے، تو ہم آپ کے لئے ایک جوڑا دھو کر تیار کرلیتے… اب میلے کپڑوں میں پشاور کیسے جاؤ گے…؟ میں نے کہا، خیر ہے… اگر میرے اپنے صاف کپڑے نہیں ہیں، تو بابر کے دے دیں (اس بار مسکراہٹ کے ساتھ ترچھی نظر سے میری طرف دیکھا)… تو یہ میں نے بابر کے کپڑے پہنے ہیں!‘‘۔
اللہ اکبر…!
خدا گواہ ہے کہ نہ کسی نے ان کے کپڑوں کی کوئی بات چھیڑی تھی، نہ اس بات کی کوئی تک بنتی تھی…۔ ہو سکتا ہے، میری طرح کوئی اور بے وقوف بھی تنقید کے سرکش گھوڑے پر سوار، اسی طرح گرفتار خرافات ہو، جس طرح میں تھا۔ لیکن اس کا امکان کم اس لئے ہے، کہ ساری محفل ان کے مخلص عقیدت مندوں پر مشتمل تھی۔ ہاں۔! جماعت اسلامی کا یہ تربیت یافتہ، جس نے ’’لفظ‘‘ کے ظاہر کو سب کچھ سمجھ رکھا تھا، اور اس کی ہر حقیقی معنویت سے عاری و بے خبر تھا… ایک ایک چیز پر انگلی اٹھا کر اس درویش خدا کے آستانے پر ظاہری نہیں تو باطنی بدگمانی سے اس کی توہین کر رہا تھا۔ اور وہ خدا کا بندہ صبر و محبت سے نہ صرف اسے برداشت کر رہا تھا، بلکہ اصلاح کی فکر بھی کر رہا تھا۔
یہ ہے وہ چیز جس کے پیچھے میں کف افسوس نہ ملوں۔ تو کروں کیا؟
میں…:
’’میرے دل میں آتا ہے… ماموں جان کی خواہش بھی ہے، اور دل تو میرا بھی چاہتا ہے کہ ہاتھ آگے بڑھا کر بیعت کرلوں۔ لیکن ایک تحریک سے پہلے ہی وابستگی ہے۔ اس کے کام سے آج تک انصاف نہیں کر سکا ہوں۔ اب اپنے آپ کو ایک اور آزمائش میں ڈال دوں؟ ہے تو بظاہر یہ زبان سے ذکر و اذکار کا معاملہ، لیکن لگتا نہیں کہ آسان کام ہے… فاروق…! مانو یا نہ مانو… یہ پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بچھونا ہے… اپنے لئے ایک اور کام ڈھونڈو گے!
بابا جیؒ:
’’گھر گھر جاتا ہوں، در بدر ٹھوکریں کھا کر لوگوں کی منتیں کرتا ہوں… لوگو…! آؤ… میری طرف آؤ۔ کانٹے نہیں ہیں پھول ہیں۔ پھولوں کی بھری جھولی لئے پھرتا ہوں۔ اور کہتا ہوں۔ لو۔! جتنا لے سکتے ہو لے لو۔ لیکن لوگ ہیں۔ پھولوں کی اس بھری جھولی کو کانٹے سمجھ رہے ہیں…!‘‘
اللہ اکبر…! (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post