دھوکہ دہی پر آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کا بھائی گرفتار

0

ایس اے اعظمی
پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کا بھائی ارسلان خواجہ رقابت کی آگ میں جل کر جیل پہنچ گیا۔ ایک ہی لڑکی سے محبت کرنے والے 31 سالہ ارسلان خواجہ نے اپنے رقیب قمر نظام الدین کی پولیس میں مخبری کرتے ہوئے اس کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور اس پر وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور اعلیٰ آسٹریلوی قیادت کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ عثمان خواجہ نے ثبوت کے طور پر ایک جعلی فہرست بھی بناکر دی تھی۔ جس پر آسٹریلین کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے قمر نظام الدین کو گرفتارکرلیا تھا۔ تاہم جب قمر کو قید تنہائی میں رکھ کر باریک بینی سے تفتیش کی گئی تو علم ہوا کہ ارسلان کی جانب سے قمر پر لگائے جانے والے الزامات جھوٹے اور بوگس تھے۔ اس تصدیق کے بعد پولیس نے نہ صرف سری لنکن نوجوان قمر نظام الدین کو فوری طور پر رہا کر دیا، بلکہ اس سے گرفتاری پر معذرت کرتے ہوئے مقدمہ پر آنے والے اخراجات کی مد میں مناسب ہرجانہ ادا کرنے کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔ دوسری جانب آسٹریلوی پولیس نے جھوٹے الزامات لگانے پر پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کے چھوٹے بھائی ارسلان خواجہ کو ہتھکڑیاں لگا دیں۔ اس وقت ارسلان پولیس کو گمراہ کرنے، جعلی مقدمہ بنوانے، جھوٹے ثبوت پیش کرنے اور ایک بیگناہ کو جیل بھجواکر اس کی عزت خراب کرنے کے الزامات کے تحت جیل میں قید ہے۔ آسٹریلین پولیس کا کہنا ہے کہ قمر کے کیس کو حساس کیٹیگری میں رکھا گیا تھا اور اس کی تفتیش میں سری لنکن سفارتی حکام اور کامن ویلتھ ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن سے بھی مدد طلب کی گئی تھی۔ تاہم تفتیش میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ ارسلان اور قمر کے درمیان معاملہ ایک اکیس سالہ لڑکی سے محبت اور اس کی توجہ حاصل کرنے کا تھا۔ ارسلان خواجہ نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی میں واقع قمر نظام الدین کی رہائش پر سیکورٹی گارڈ کے روپ میں آیا تھا اور اس کی ڈائری چرالی تھی۔ لیکن اب ارسلان جھوٹا کیس بنوانے اور پولیس کو دھوکا دہی کے مقدمہ میں ماخوذ ہے۔ سری لنکن نوجوان قمر نظام الدین کے آسٹریلین وکیل مصطفی خیر نے اپنے موکل کی رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کے موکل کے ساتھ ارسلان اور پولیس نے جو کچھ کیا، وہ ناقابل معافی ہے۔ ان کی شہرت اور کیریئر کو نقصان پہنچانے کی کوشش پر انہیں بھاری ہرجانہ ملنا چاہئے۔ کیونکہ بغیر کسی ججمنٹ کے انہیں گرفتار کیا گیا اور قید تنہائی میں اس طرح انٹروگیشن کی گئی جیسے وہ داعش کا کوئی بہت بڑا دہشت گرد ہو۔ قمر نظام الدین نے نیو سائوتھ ویلز سپریم کورٹ میں اپنے وکیل کے توسط سے ہرجانے کی ادائیگی کا مقدمہ دائر کردیا ہے، جس میں عدالت نے پولیس اور حکومت کو نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ جس پر پولیس کمشنر نے معافی مانگنے اور کیس کی فیس کی ادائیگی سے اتفاق کیا ہے۔ قمر کے وکیل کا کہنا ہے کہ ہرجانہ کی رقم بھاری بھرکم ہوگی اور اس کا فیصلہ عدالت میں کیا جائے گا۔ میڈیا بریفنگ میں پولیس کمشنر میک کارتھی نے بتایا ہے کہ قمر نظام الدین کیس میں تفتیش کے دوران یہ بات پتا چلی کہ ارسلان خواجہ اور قمر نظام الدین آپس میں دوست تھے اور اتفاق سے ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے تھے۔ لیکن ارسلان نے لڑکی کا جھکائو قمر کی جانب سے دیکھتے ہوئے اپنے رقیب کو دہشت گردی کے کیس میں پھنسانے کا فیصلہ کیا۔ پھر جھوٹے الزامات اور ثبوتوں کے ذریعے اس کو خطرناک دہشت گرد قرار دیکر گرفتار کرادیا تھا۔ ارسلان نے دعویٰ کیا تھا کہ قمر نظام الدین ایک دہشت گرد گروپ کا رکن ہے اور آسٹریلین وزیر اعظم میلکم ٹرن بل، وزیر خارجہ جولی بشپ کو قتل کرنا چاہتا ہے اور باربر برج سمیت سڈنی اوپیرا ہائوس اور اہم عمارتوں پر حملوں کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کائونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ میک کارتھی نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے ارسلان خواجہ کی جانب سے ملنے والی خفیہ ٹپس پر وقت ضائع کئے بغیر قمر نظام الدین کو گرفتار کرلیا اور اس کو ہائی پروفائل گولبرن سپرمیکس جیل کے اندر قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس سے باریک بینی کے ساتھ متعدد ٹیموں نے دہشت گردی کے منصوبوں سے متعلق تفتیش کی گئی۔ لیکن تمام تفتیش کار بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ قمر نظام الدین بے گناہ ہے اور دہشت گردی کے اہداف کی مبینہ فہرست اس کی ہینڈ رائٹنگ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس کیس میں گرفتاری کے بعد نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی اساتذہ اور طلبا نے سری لنکن طالب علم قمر نظام الدین کی رہائی کیلئے متعدد مظاہرے کئے تھے اور سری لنکن باشندوں میں پاکستانیوں کیلئے منفی جذبات پیدا ہوئے تھے، جس کی تمام ذمہ داری ارسلان خواجہ پر عائد ہوتی ہے۔ ادھر پاکستانی نژاد آسٹریلین کرکٹر عثمان خواجہ سے جب میڈیا نمائندوں نے ان کے بھائی کی رقابت اور جیل جانے کی وجوہات کے بارے میں استفسار کیا تو عثمان خواجہ نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ معاملہ کورٹ میں ہے اور ان کی خاندانی پرائیویسی کا احترام کیا جائے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More