ضیاء چترالی
مسلمانوں کا تاریخی شہر اور عراقی دارالحکومت بغداد عرصے سے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی زد میں ہے۔ لیکن گزشتہ دو برس سے یہاں بھڑکنے والی پراسرار آگ نے بھی شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بغداد میں روزانہ اوسطاً 16 جگہ آتشزدگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 2 دو برس کے دوران 12 ہزار ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک خوفناک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ جب اگست 2016ء میں بغداد میں ایک اسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں آتشزدگی کی زد میں آکر 20 سے زائد نومولود جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس پراسرار آتشزدگی کا سبب شارٹ سرکٹ بتایا گیا تھا۔ پراسرار آگ کی لپیٹ میں آنے والی عمارتوں میں سرکاری دفاتر، مارکیٹیں، دکانیں اور لوگوں کے رہائشی مکانات بھی ہیں۔ آتشزدگی کی زد میں آکر کئی تاریخی مقامات بھی بھسم ہو چکے ہیں۔ جن میں 200 سال پرانا القیصریہ بازار بھی شامل ہے۔ جو خوفناک آتشزدگی میں راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ محدود اندازے کے مطابق بارہ ہزار مرتبہ آگ بھڑکنے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ مذکورہ بازار میں حقی اسماعیل کے ایک ارب ڈالر کے ہیرے جواہرات، سونا چاندی، نقدی اور دیگر سامان جل گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس اقدام کے بعد بغداد کے اس ویئر ہائوس میں آگ لگ گئی، جہاں ووٹوں سے بھرے باکسز پڑے ہوئے تھے۔ یہ سب سے بڑا گودام تھا۔ اس آگ کا سبب معلوم نہیں ہوسکا۔ الجزیرہ کے مطابق کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ بغداد کا کوئی نہ کوئی علاقہ اس پراسرار کی لپیٹ میں نہ آتا، حتیٰ کہ وزارتوں کے دفاتر کو بھی یہ آگ نہیں بخشتی۔ سرکاری عمارتوں میں ہونے والی آتشزدگی کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ جان بوجھ کر سلگائی جاتی ہے تاکہ دستاویزات کو جلا کر کرپشن کا ثبوت مٹا دیا جائے۔ لیکن دکانوں، مارکیٹوں، مکانات اور عوامی مقامات میں ہونے والی آتشزدگی کی کوئی توجیہہ نہیں جاسکتی۔ حکام ابھی تک اس کا کھوج لگانے میں ناکام ہیں۔ بغداد کے محکمہ شہری دفاع کا کہنا ہے کہ اگست 2016ء سے اگست 2018ء تک دو برس کے دوران بارہ ہزار سے زائد مقامات پر آگ لگ چکی ہے۔ اس محکمے کے مطابق چالیس فیصد واقعات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ آگ عمداً لگائی گئی۔ لیکن ساٹھ فیصد واقعات پراسرار ہیں۔ 12 ہزار میں سے نصف یعنی 6 ہزار واقعات تجارتی مراکز، مارکیٹوں اور دکانوں میں پیش آئے۔ ان واقعات میں صرف 10 فیصد میں انسانی کوتاہی کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔ محکمہ شہری دفاع کے ترجمان جودت عبد الرحمن کا الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ سلسلہ گزشتہ دو برسوں سے جاری ہے۔ ہم اس کا سبب معلوم کرنے کیلئے تحقیقات کر رہے ہیں اور شہریوں کی حفاظت کیلئے ہر ممکن تدبیر کر رہے ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ آگ اس کی کوتاہی کے سبب لگی ہے تو اسے ڈھائی سے بارہ لاکھ دینار جرمانہ کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق تجارتی مراکز میں ہونے والی آتشزدگی کے بعض واقعات ایسے ہولناک تھے، جس سے سینکڑوں تاجر بالکل فٹ پاتھ پر آگئے۔ محمد جمال بھی ایسے تاجروں میں ہیں۔ جس کی الشورقہ مارکیٹ میں عطورات کی دکان تھی۔ جب یہ مارکیٹ آگ کی لپیٹ میں آگئی تو اس کی دکان میں رکھے عطر کے ڈرم پھٹ گئے اور نہ صرف سارا سامان خاکستر ہوگیا، بلکہ دکان بھی منہدم ہوگئی۔ اس اچانک بھڑکنے والی آگ سے محمد جمال کا بیٹا اور ملازم بھی خود کو نہ بچا سکے، وہ بری طرح جھلس گئے اور بعد میں دوران علاج چل بسے۔ علی کامل کی دکان مشرقی بغداد کے ایک بازار میں تھی۔ یہ بازار بھی آگ کی لپیٹ میں آگئی تو علی کامل کی اشیائے خوردنی کی دکان بھی مکمل طور پر خاکستر ہوگئی اور اسے پچاس ہزار ڈالر کا نقصان ہوا۔ مقامی صحافی علی عبد الرزاق کا کہنا ہے کہ حکومت مختلف اسباب بیان کرکے جان چھڑا لیتی ہے۔ لیکن اس وقت عراق دنیا کے بد ترین کرپشن دور سے گزر رہا ہے۔ سرکاری عمارتوں میں آتشزنی تو کرپشن چھپانے کیلئے کی جاتی ہے۔ باقی مارکیٹوں میں تاجر ایک دوسرے کے حسد کی وجہ سے آگ لگا دیتے ہیں۔ اگر آپ مارکیٹ چلے جائیں تو بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور زیادہ سے زیادہ مالدار ہونے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ پھر بیشتر مارکیٹیں بھی سیاستدانوں کی ہیں، جو ایک دوسرے کی مخالفت میں جان بوجھ کر آگ لگوا دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بغداد میں آتشزدگی کے واقعات اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ اب انہیں معمول سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ عوامی سطح پر یہ سوچ بھی عام ہوگئی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کوئی خفیہ اور پراسرار طاقت کار فرما ہے۔ اس لئے ہر شخص کو یہ دھڑکا لگتا ہے کہ کسی وقت بھی اس کے گھر یا دکان کو آگ اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یہ پراسرار آگ اب بغداد میں ایک دہشت کی علامت بن چکی ہے۔
٭٭٭٭٭