محمد زبیر خان
تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں ڈیم کے لئے اب تک صرف آٹھ ارب بائیس کروڑ روپے جمع کئے جا سکے ہیں۔ بھاشا ڈیم بروقت تعمیر کرلیا جاتا تو اس کی لاگت بارہ سو ارب روپے آتی۔ تاہم تاخیر کے سبب تعمیر کی لاگت 18 سو ارب سے 22 سو ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اگر مزید تاخیر کی گئی تو لاگت دو گنا، یعنی کم و بیش چالیس سو ارب روپے تک بڑھ سکتی ہے۔ سابقہ حکومت نے بجٹ میں ڈیم کیلئے 370 ارب روپے مختص کئے تھے۔ ڈیم کیلئے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی۔ مگر تاحال ڈیم پر باقاعدہ کام بھی شروع نہیں کیا جاسکا۔ تربیلہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش چالیس فیصد کم ہونے کے سبب نیا ڈیم اور اس کی جلد از جلد تعمیر زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے کم از کم دس سال لگاتار تعمیراتی کام کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق ڈیم فنڈ میں بدھ کی شام تک آٹھ ارب بائیس کروڑ چھپن لاکھ باون ہزار ایک سو پچاس روپے اکٹھے ہو چکے تھے۔ واضح رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے قیام کا منصوبہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیش کیا گیا، جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان میں بھاشا کے مقام پر تعمیر ہونا ہے۔ ابتدا میں اس کا تخمینہ 12 سو ارب روپے لگایا گیا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ لاگت بڑھتی رہی اور ماہرین کے بقول اب اس کی لاگت 18 سو ارب سے 22 سو ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ مہنگائی، پیٹرول، گیس اور ڈالر کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ ہو رہا ہے، ڈیم کی تعمیری لاگت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ مہنگائی اور ڈالر و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے کی جانے والی اصلاحات ہیں۔ آئی ایم ایف نے بیل آئوٹ پیکج پر بات چیت شروع کر رکھی ہے۔ جب بیل آئوٹ پیکج لے لیا جائے گا تو آئی ایم ایف کی اصلاحات کے نام پر مزید مہنگائی کا طوفان آئے گا، ڈالر کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گی، جس کے سبب ڈیم کی لاگت بھی بڑھے گی۔ اگر ڈالر وغیرہ کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد ڈیم کی لاگت بائیس سو ارب روپے سے زائد تک پہنچ چکی ہے تو بیل آئوٹ پیکج، جس میں ملک سے ایکسپورٹ بڑھانے کے نام پر ایک بار پھر ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوگا تو اُس وقت کی ڈیم کی لاگت میں دو گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یعنی جتنا وقت گزرتا جائے گا، اتنا ہی ڈیم کی تعمیر میں مسائل اور لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے لئے مسلسل دس سال تعمیراتی کام کی ضرورت ہے۔ لیکن اب تک ذرہ برابر کام شروع نہیں کیا جا سکا۔ اسی سبب خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈیم کی لاگت چالیس سو ارب تک پہنچ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ مختلف ملکی اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں، جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مختلف رپورٹوں کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی اسی سال آنے والی مختلف رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 2040ء تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے۔ لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے، اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ پانی کے ضائع ہونے کی چند بڑی وجوہات میں موسمی حالات کی تبدیلی، بارشوں میں کمی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی بچانے کے انتہائی ناقص ذرائع ہیں۔ علاوہ ازیں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی ضائع ہورہا ہے۔ پاکستان میں 15 میٹر سے زیادہ بلند ڈیموں کی تعداد 150 ہے۔ ان میں تربیلا اور منگلا سب سے پرانے ہیں، جو بالترتیب 1974ء اور 1967ء میں مکمل ہوئے تھے۔ سب سے بڑا ڈیم تربیلہ ہے، جس پر پاکستان اپنے پانی کے لئے بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ تاہم تربیلہ میں بھی اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش چالیس فیصد کم ہوچکی ہے۔ ہائیڈرو گرافک سروے کے مطابق تربیلہ ڈیم میں مٹی اور ریت بھر جانے کے باعث پانی کی گنجائش کم ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیم میں سے ریت اور مٹی نکالنا خطرناک اور مہنگا عمل ہے۔ مٹی و ریت نکالنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دریائے سندھ پر مزید ڈیم تعمیر کئے جائیں۔ اس صورت میں تربیلہ ڈیم کی زندگی میں بھی اضافہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post