ہوٹلوں میں جدید مانیٹرنگ سسٹم نہ ہونے سے دہشت گردوں کو فائدہ

0

عمران خان
کراچی کے تمام ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ’’ریڈ آئی‘‘ نامی جدید مانیٹرنگ سسٹم کی تنصیب نہ ہونے سے دہشت گردوں کو بالواسطہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ دہشت گردی کے تازہ واقعات میں ملوث کارندوں کی جانب سے شہر کے ہوٹلوں میں قیام کے شواہد سامنے آنے کے بعد تحقیقاتی اداروں کے افسران نے اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ اب تک شہر کے تمام ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کو ریڈ آئی سافٹ ویئر کے ذریعے پولیس ہیڈ آفس کے سینٹرل مانیٹرنگ سسٹم سے منسلک نہیں کیا جاسکا۔ پوش علاقوں کے صرف 20 فیصد ہوٹل اور گیسٹ ہائوسز اب تک اس سافٹ ویئر کے ذریعے پولیس کے ڈیٹا سسٹم سے منسلک ہوئے ہیں۔ جس کے باعث شہر کے تمام علاقوں میں قائم ہوٹل اور گیسٹ ہائوسز میں آکر رہائش رکھنے والوں کے کوائف بروقت پولیس کو نہیں موصول ہو رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان میں شہر کے مرکزی علاقے صدر کے بھی کئی ہوٹل شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایک روز قبل ہونے والی میٹنگ میں یہ صورتحال سامنے آنے کے بعد شہر کے تمام ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کو فوری طور پر اس سسٹم سے منسلک کرنے کیلئے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ یہاں پر قیام کرنے والوں کے شناختی کارڈز اور فنگر پرنٹس کے ساتھ دیگر ڈیٹا فوری پولیس کے سینٹرل ڈیٹا کو موصول ہوسکے اور روزانہ کی بنیاد پر آکر ٹھہرنے والوں اور رہائش چھوڑ کر جانے والوں کی آن لائن مانیٹرنگ ہوسکے۔
’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے چینی قونصل خانے پر حملہ کیس اور درخشاں کے علاقے میں ہونے والے کار بم دھماکے کے تفتیشی افسر، ایس ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ طارق رزاق دھاریجو نے تصدیق کی ہے کہ چینی قونصل خانے پر حملے کیلئے بلوچستان کے علاقے خاران سے آنے والے تینوں حملہ آوروں نے مرکزی دہشت گرد رزاق بلوچ کے شناختی کارڈ پر صدر کے علاقے میں قائم جس گرین سٹی ہوٹل میں قیام کیا تھا، یہ ہوٹل سافٹ ویئر کے ذریعے پولیس کے سینٹرل ڈیٹا سسٹم سے منسلک نہیں تھا۔ اسی طرح سے لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں جس ہوٹل میں کمرہ لیا گیا وہ بھی ’’ریڈ آئی ‘‘ نامی سافٹ کے ذریعے پولیس کے سسٹم سے منسلک نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دہشت گردوں کے ٹھہرنے کے حوالے سے کوائف پولیس کو بروقت نہیں مل سکے تھے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں سی پیک منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی شہر میں چینی باشندوں سمیت دیگر غیر ملکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اپیکس کمیٹی کی سفارشات اور انٹیلی جنس رپورٹوں کی روشنی میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میں آکر ٹھہرنے والوں کے آن لائن کوائف جمع کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے تحت ابتدائی طور پر کراچی کے پوش ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کے علاوہ حیدر آباد، سکھر اور سندھ کے دیگر بڑے شہروں کے چیدہ چیدہ ہوٹلوں میں یہ سافٹ ویئر نصب کرکے انہیں کراچی میں پولیس ہیڈ آفس میں قائم مرکزی ڈیٹا سسٹم سے منسلک کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اس سافٹ ویئر میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کے منیجر کمرے لینے والوں کے شناختی کارڈ کے کوائف کے علاوہ ان کی تصاویر اور فنگر پرنٹ لے کر فیڈ کرتے ہیں اور یہ انفارمیشن لمحوں کے اندر ہوٹل کے نام اور پتے کے ساتھ پولیس ہیڈ آفس کے سسٹم میں پہنچ جاتی ہے، جہاں پر مانیٹرنگ کرنے والے افسران اس ڈیٹا کو پولیس کے کرمنل ڈیٹا سے میچ کرتے ہیں اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہوٹل یا گیسٹ ہائوس میں رہائش رکھنے والے افراد کسی کیس یا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث تو نہیں ہیں۔ اگر ان افراد کا کرمنل ریکارڈ نکل آئے تو پولیس کی متعلقہ تھانے کی ٹیم یا پھر متعلقہ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی آفس کو اطلاع دی جاتی ہے جو فوری ایسے افراد کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعد ازاں اس منصوبے کو شہر کے تمام ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز تک پھیلانا تھا۔ تاہم اس منصوبے کی تکمیل میں بھی پولیس افسران اور حکومت کے متعلقہ اداروں کی روایتی سست روی اور عدم دلچسپی آڑے آئی جس کی وجہ سے اب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
ذرائع کے بقول اس وقت شہر میں ساڑھے چار ہزار سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹل، رہائشی ریستوران اور گیسٹ ہائوس موجود ہیں، جن میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد بیرون شہر اور بیرون ملک سے آکر مقیم ہوتے ہیں۔ سافٹ ویئر کی عدم فعالیت کے علاوہ روایتی طور پر ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کی مانیٹرنگ اور ریکارڈ حاصل کرنے کے ذمہ دار ادارے، اسپیشل برانچ کے اہلکار اور افسران بھی کئی برسوں سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرر رہے ہیں۔
اس ضمن میں ایس ایس پی طارق رزاق دھاریجو کا مزید کہنا تھاکہ اعلیٰ حکام اس وقت اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہیں اور جلد ہی اسے تکمیل تک پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ سافٹ ویئر وقتاً فوقتاً ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میں رہائش رکھ کر جانے والے افراد کے ریکارڈ کو بھی ون ٹچ پر سامنے لے آتا ہے، جو اکثر تازہ تحقیقات میں اہم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ قونصل خانے پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے جس کمانڈر اسلم بلوچ نے روانہ کیا تھا، وہ بھی ماضی میں کراچی کے ہوٹلوں میں رہائش رکھ کر جاچکا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More