اسد عمر کی جگہ ڈاکٹر شمشاد اخترکو لانے پر غور

0

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وہ سارے بڑے جنہوں نے موجودہ حکومت کو قائم ہونے میں مدد دی، اپنی جگہ سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ اتنی جلدی جھاگ بیٹھ جائے گا، انہوں نے سوچا تک نہ تھا۔ فرسٹریشن پر مبنی وزیر خزانہ کے اقدامات اتنی جلدی قومی معیشت کی چولہیں ہلا دیں گے، شاید کسی کے تصور میں بھی نہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسد عمر کو فارغ کرنے اور ڈاکٹر شمشاد اختر کو نیا وزیر خزانہ لگانے کی سرگوشیاں آسمانوں سے نیچے اتر رہی ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک، اسد عمر اور عمران خان کے بیانات کے تضاد نے سچی بات ہے باخبر لوگوں کو ہلا دیا ہے کہ حکومت کا اگر اب یہ حال ہے تو آگے کیا ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کہتا ہے کہ ہم نے ایک دن پہلے وزیر خزانہ کو مطلع کر دیا تھا۔ وزیر خزانہ کہتا ہے میں نے وزیراعظم کو مطلع کر دیا تھا اور وزیراعظم کہتا ہے مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔ وزیر خزانہ کے اقدامات نے پارٹی رہنماؤں کی نیندیں اڑا دی ہیں، ان کی نیندیں اڑیں تو وزیراعظم کی بھی اڑ گئی اور ان سے زیادہ ان کی اڑ گئی، جو انہیں لائے تھے۔ شنید ہے کہ وزیراعظم نے اپنے ”بڑوں“ سے کئی بار کہا ہے کہ انہیں دوبارہ الیکشن کرا کے زیادہ اکثریت دلائی جائے، تاکہ ان کے بندھے ہاتھ کھل سکیں اور وہ ڈٹ کر قانون سازی اور انقلابی فیصلے کر سکیں۔ ”بڑے“ کہتے ہیں کہ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے“۔ روز عید نہیں ہوتی کہ بندہ ہر بار حلوہ کھائے، جو ہونا تھا ہو گیا اور اس ہونے سے ہونے والی بدنامی نے اداروں کی ساکھ کو کئی جگہ سے ڈینٹ مار دیا۔ اس لئے یہ سارے کام دوبارہ نہیں ہو سکتے۔ کام کرنا ہے تو اسی دور میں کریں اور ضروری نہیں کہ ہر بار آپ کو باری ملے۔ وزیراعظم کے اناڑی پن اور معاملات سنبھال نہ پانے کی خاصیت کے سبب اب بہت سے بڑوں کو شہباز شریف یاد آنے لگے ہیں۔ غالباً وجہ یہ ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کی گواہی دینے والا اب تک کوئی نہیں ملا۔ کئی بڑوں کی زبان سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ وہ اتنا بیمار تھا، پھر بھی اتنا کام کرتا رہا۔ ایک حلقے کی رائے یہ بھی ہے کہ اسد عمر کے فیصلوں سے صرف پارٹی اور حکومت ہی کو زک نہیں پہنچی، ان حلقوں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے، جن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے حکومت جمانے میں مدد دی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد کو اندازہ ہوا کہ وزیر خزانہ پوری تیاری سے نہیں آئے ہیں، اس لئے بعض مواقع پر انہیں مناسب جواب دینے میں دشواری پیش آئی۔ اب صورت یہ ہے کہ کام کے انبار اور کابینہ ارکان کی نالائقی کے سبب عمران خان کافی چڑچڑے ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی باقاعدہ کام کرنے اور دفتر چلانے کا انہیں کوئی تجربہ نہ تھا۔ وہ اپنی مرضی سے سوتے تھے، مرضی سے جاگتے تھے۔ اب تو سونے جاگنے اور کھانے پینے کے اوقات بھی ٹائم ٹیبل کی سختی تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بے شمار مسائل کا انبار۔ وزیراعظم کے مزاج کی تبدیلی فطری ہے۔ بعض باخبر بیورو کریٹ کہتے ہیں کہ خان صاحب آج کل کسی بھی بات پر کسی کو بھی ڈانٹ دیتے ہیں۔ ان میں کابینہ ارکان اور بیورو کریٹ سبھی شامل ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سمجھدار بیورو کریٹس نے مشورہ دینے میں احتیاط شروع کر دی ہے، کیونکہ مفت کی بے عزتی کون کراتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کے عہدے کے لئے لابنگ کرنے والوں میں پی پی دور کے سابق وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ بڑے سرگرم ہیں، لیکن قرعہ فال نگراں دور کی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے نام کھل سکتا ہے، جو اسٹیٹ بینک کی گورنر بھی رہی ہیں، اس طرح انہیں دونوں جگہ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ ذرائع کے بقول سلمان شاہ اگرچہ جنرل آصف نواز مرحوم کے داماد ہونے کی سند فضلیت رکھتے ہیں، لیکن ان کی صلاحیتوں سے غیبی طاقتوں کے بڑے کچھ زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More