اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نےنثاروزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے ایف بی آر اور ایف آئی اے کی تحقیقات پرعدم اطمینان کا اظہار کردیا۔سپریم کورٹ نے علیمہ خان کے خلاف کارروائی سے متعلق ایف بی آر سے رپورٹ طلب کرتےہوئے چیئرمین ایف بی آر اور ممبر انکم ٹیکس کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے تاہم بعد میں نوٹس واپس لے لئے گئے۔اور انہیں 3 روز میں شوکاز کا جواب دینے کی ہدایت کی ہے،چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تحقیقات کا معاملہ جان بوجھ کر خراب کیا گیا۔ ایف بی آر جان بوجھ کر معاملے کو لٹکانے سمیت معاملے میں ابہام پیدا کرنا چاہتا ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکائونٹس سے متعلق کیس کی سماعت کی،سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا دبئی میں جائیداد خریدنے والے 20 افراد کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، باقی جن پاکستانیوں نے جائیدادیں خریدیں ان کے خلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے۔اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا دبئی میں جائیداد خریدنے والوں کے معاملے پر اسپیشل زونز بنا رہے ہیں اور آف شور اکاؤنٹس سے ڈیل کرنے کے لیے خصوصی زونز بن گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اسپیشل کمیٹی کی رپورٹ کدھر ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا جو 20 لوگ ایف بی آر میں پیش ہوئے ان پر رپورٹ کیا ہے اور ایف بی آر اپنی اب تک کی کارکردگی بتائے۔ممبر ایف بی آر نے کہا کہ 20 لوگوں میں سے 14 کے خلاف مزید کارروائی تجویز کی ہے ،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ،وقار احمد کے خلاف مزید تحقیقات کیوں تجویز کی گئی، جس پر وکیل نے کہا وقار احمد ایف بی آر میں پیش ہوئے دوبارہ بلایا ہی نہیں گیا۔ممبر ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا کہ اثاثوں کی تصدیق کرنا فیلڈ افسران کا کام ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے ایف بی آر کو عدالت کا حکم سمجھ میں ہی نہیں آیا، عدالت نے جوائنٹ ٹیم تشکیل دی تھی ،جسے 20 افراد کے اثاثوں کی تصدیق کرنی تھی۔ممبر ایف بی آر نے عدالت کو بتایا نوشاد احمد نے 7 جائیدادیں ظاہر کیں اور 6 ایف آئی اے کے سامنے ظاہر کیں ،جب کہ ان کی غیر ملکی جائیدادوں کا آڈٹ ہو رہا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت نے آپ کو آڈٹ کر انے کا نہیں کہا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ لوگ کیس لٹکانا چاہتے ہیں، ایف بی آر جان بوجھ کر معاملے کو لٹکانے سمیت معاملے میں ابہام پیدا کرنا چاہتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا علیمہ خان کے کیس کا کیا ہوا ،جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا عدالت منگل تک مہلت دے دے، 3 دن میں کمیٹی بنا کر عدالت کو تفصیلات دیں گے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کیوں نہ ممبر آپریشن کو معطل کر دیں، ایف بی آر کو عزت نہیں کرانی تو ہم نہیں کریں گے، کیا ایف بی آر باہر پیسہ لیجانے والوں کو بچانا چاہتا ہے۔جسٹس نے استفسار کیا علیمہ خان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ،جس پر ممبر آپریشن ایف بی آر نے کہا علیمہ خان کے خلاف لاہور آفس کو کارروائی کا کہہ دیا ہے جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایف بی آر کو لاہور نہیں یہاں کارروائی کا کہا تھا۔چیف جسٹس نے کہا ممبر آپریشن آپ اس ملک کے کیسے افسر ہیں، آپ لوگ عدالت کو کنفیوژ کرنا چاہتے ہیں، لگتا ہے ایف بی آر خود بھی ملا ہوا ہے، کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔عدالت نے ایف بی آر اور ایف آئی اے کی اسپیشل کمیٹی کی کارکردگی پر اظہار عدم اطمینان کیا اور کہا کہ عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، ایف بی آر نے ایف آئی اے کی محنت بھی سردخانے میں ڈال دی۔عدالت نے علیمہ خان کے خلاف کارروائی پر 13 دسمبر تک رپورٹ طلب کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر اور ممبر انکم ٹیکس کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیے اور انہیں 3 روز میں شوکاز کا جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔