خصوصی کمیٹی کی چین کے ساتھ صنعتی تعاون فریم ورک کی منظوری
اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر ) وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے سی پیک نے چین کے ساتھ صنعتی تعاون فریم ورک کی منظوری دے دی ہے جس پر 20 دسمبر کو بیجنگ میں ہونے والے 8 ویں جے سی سی اجلاس میں دستخط کیے جائیں گے۔ کمیٹی کا اجلاس جمعہ کے روز ہوا جس کی صدارت وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار نے کی، جبکہ کمیٹی اراکین کے علاوہ وفاقی سیکرٹریز نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کو توانائی، ٹرانسپورٹ، منصوبہ بندی، گوادر اور صنعتی تعاون کے جائنٹ ورکنگ گروپس کنونئیرز کی جانب سے سی پیک 8ویں جے سی سی ایجنڈے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی نے جائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے ایجنڈے، پاکستانی وفد اور جے سی سی اجلاس کے انعقاد کی بھی منظور دی۔ کمیٹی کی جانب سےاجلاس میں تمام صوبوں کے وزراء اعلی کو شرکت کی دعوت دینے پر اظہار اطمینان کیا گیا کہ اس سے صوبوں کو اقتصادی زونز کی مارکیٹنگ اور منصوبوں پر تفصیلی بحث کا موقع ملے گا۔ کمیٹی نے سی پیک صنعتی تعاون پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا اور صنعتی تعاون پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت بھی کی۔ کمیٹی چیئرمین مخدوم خسرو بختیار نے ہدایت کی کہ صنعتی زونز میں چینی صنعتوں کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کمیٹی نے رشکئی اقتصادی زون کا فوری سنگ بنیاد رکھنے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت بھی کی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ سی پیک میں سماجی شعبے و زرعی سیکٹر کو شامل کرکے اس کی بنیاد کو وسعت دی ہے۔ انہوں نے زراعت و سماجی شعبے میں صوبوں کے ساتھ مل کر پائلٹ پراجیکٹس کی شناخت اور جے سی سی میں لے جانے کی ہدایت بھی کی۔کمیٹی اجلاس میں گوادر میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا اور گوادر ائرپورٹ، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، گوادر ہسپتال اور گوادر پاور پراجیکٹ کی سنگ بنیاد رکھنے کیلئے فوری اقدامات کی ہدایت کی۔ اجلاس میں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کے تمام منصوبوں بشمول صوبائی منصوبوں و ماس ٹرانزٹ پر تفصیلی بحث ہوئی۔ کمیٹی نے پاکستان ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون کے حوالے سے واضح روڈ میپ تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ کمیٹی نے قراقرم ہائی وے تارائی کوٹ سیکشن اور مغربی روٹ کے ڈیرہ اسماعیل خان ژوب سیکشن کے لیے مالی معاونت حاصل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ مغربی روٹ کی تعمیرموجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔مغربی روٹ سے خیبر پختونخوا و بلوچستان کے کم ترقی یافتہ علاقے ترقی کے نئے دور میں داخل ہوں گے۔