العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں خواجہ حارث کے حتمی دلائل
اسلام آباد( کورٹ رپورٹر )احتساب عدالت نمبر2کے جج محمد ارشدملک کی عدالت میں زیر سماعت العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنس میں گذشتہ روز سابق وزیر اعظم نوازشریف پیش ہوئے سماعت شروع ہونے پر عدالت کاکہنا تھا کہ آج ہی مدت میں توسیع کیلئے خط لکھا تھا، جس پررجسٹرار کا فون آیا ہے کہ درخواست سماعت کیلئے مقررکر دی گئی ہے جس کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث سپریم کورٹ کیلئے روانہ ہوگئے بعد ازاں واپس آنے پر خواجہ حارث نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں اپنے حتمی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جن دستاویزات کی بنیاد پر یو اے ای حکام کو ایم ایل اے لکھا گیا وہ عدالت کے سامنے نہیں اس موقع پر عدالت نے کہاکہ ان دستاویزات کے بجائے میں آپ کے دلائل سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہوں ،جس پر خواجہ حارث نے بتایاکہ واجد ضیاء نے کہا کہ بارہ ملین درہم کی کوئی ٹرانزکشن نہیں ہوئی ،اس پر عدالت نے پوچھاکہ گلف اسٹیل کے زمے واجب الادا رقم کیسے ادا ہوئی ؟کیا واجب الادا رقم بینک نے ادا کرنا تھی ،کوئی بینک گارنٹی تھی ؟ جس پر وکیل صفائی نے بتایاکہ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ واجب الادا رقم کی ادائیگی کیلئے کوئی بینک گارنٹی تھی،جب واجد ضیاء نے اس ادائیگی کا ذکر کیا تو ان کے پاس بینک گارنٹی سے متعلق معلومات نہیں تھیں ،اس موقع پر عدالت نے کہاکہ معمول کی پریکٹس تو یہی ہے کہ نئے قرض کیلئے پہلا ادا کرنا پڑتا ہے،طارق شفیع نے بھی نئے قرض سے پہلے پرانا قرض واپس کیا ہوگا ؟اس پر وکیل صفائی نے کہاکہ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ قرض تھا ہی نہیں یا واپس کردیا تھا ، واجد ضیاء نے جھوٹ بولا کہ انہوں نے گلف اسٹیل کے شراکت دار محمد حسین کے بچوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، واجد ضیاء کے مطابق جے آئی ٹی کو پتہ چلا کہ شہزاد حسین لندن میں رہتے ہیں لیکن ان ایڈریس نہیں مل سکا ،جس پر عدالت نے کہاکہ مجھے نہیں سمجھ آرہا کہ ان باتوں کا اس کیس سے کیا تعلق بنتا ہے ؟خواجہ حارث نے بتایاکہ جے آئی ٹی نے 75 فیصد شئیرز کی فروخت کے معاہدے سے متعلق تحقیقات ہی نہیں کیں ،ایم ایل اے کا جواب آنے کے بعد جے آئی ٹی نے کہا کہ یہ کہانی ختم ہوگئی ،جے آئی ٹی نے گلف اسٹیل مل کی فروخت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی،اس موقع پر عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے خواجہ حارث کی تعریف کی جس پر خواجہ حارث نے جواب دیاکہ بہت چیزوں میں آپ کی اپروچ بہت زبردست ہے،میں سوچتا ہوں کہ آپ بہت اچھے وکیل ہوسکتے تھے ۔اس موقع پر معان وکیل زبیر خالد نے لقمہ دیاکہ ججز بھی تو ایسے ہی اچھی اپروچ والے ہونے چاہئیں ،خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ جے آئی ٹی نے عبد اللہ قائد آہلی کو شامل تفتیش کرنے سے گریز کیا جے آئی ٹی نے 25 فیصد شئیرز کی فروخت کے گواہوں کا بھی بیان قلمبند نہیں کیا،یہ بھی جھوٹ بولا گیا کہ معاہدے کے گواہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی جے آئی ٹی کے ممبران نہ تو یو اے ای وزرات خارجہ گئے نہ پاکستانی قونصل خانے ،1980کے معاہدے کے پیچھے یو اے ای وزرات خارجہ اور پاکستانی قونصل خانے کی مہر موجود ہے ،جے آئی ٹی کی طرف سے کہا گیا کہ وہاں کی عدالت سے معاہدے کا ریکارڈ نہیں ملا، اس موقع پر عدالت کاکہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے کہ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی تھے ،جے آئی ٹی بھی مانتی ہے ،باقی بھی سب طارق شفیع کو بے نامی کہتے ہیں،کوئی ایسی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے کہ میاں شریف نے کہا ہو کہ طارق شفیع میرے بے نامی تھے،آپ نے بڑے اچھے طریقے سے کیس پیش کیا ،عدالت نے مزید سماعت پیرتک کیلئے ملتوی کردی۔