16 دسمبر کو مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس کام میں بھارت اور امریکہ سمیت کئی طاقتوں کا ہاتھ تھا۔ لیکن کیا بات صرف اتنی تھی؟ کیا ہماری حکومت۔ سیاستداں اور بیورو کریسی بے قصور تھے؟ اس بارے میں بہت بحث ہو چکی ہے۔ لیکن سبق کسی نے نہیں سیکھا۔ 8 جون 2018ء کو چیئرمین جوائنٹ اسٹاف جنرل زبیر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے ہمارے خلاف مشرقی پاکستان میں گرے ہائی بریڈ وارفیئر طریقہ استعمال کیا تھا۔ جس سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا۔ اس طریقہ جنگ میں دہشت گردی۔ مخالفانہ پروپیگنڈا۔ کنونشنل جنگ اور وہ سارے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جو عوام کو اپنی فوج اور ریاست سے بدظن کردیں۔ جنرل زبیر کی یہ بات درست تھی۔ لیکن کیا مشرقی پاکستان صرف اس طریقہ جنگ کی بدولت بنگلہ دیش بنا؟ کیا اس کا بڑا سبب جنرل یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کی پہاڑ جیسی غلطیاں اور اقتدار کی ہوس اور بھٹو کی چالاکیاں نہ تھیں؟ جن سے بھارت نے پورا فائدہ اٹھایا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہم نے تاریخ سے رجوع کیا تو ایک نہایت مستند گواہی ہمارے ہاتھ آگئی۔ یہ تھی اقبال احمد خان سے منیر احمد منیر کے تفصیلی انٹرویو پر مبنی کتاب جو ’’اس نے کہا‘‘ کے نام سے 1996ء میں شائع ہوئی تھی۔ اقبال احمد خان کا نام شاید آج کی نسل نہ جانتی ہو۔ لیکن پرانے لوگ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ سے کیا۔ تب قائداعظم مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ آنے والے برسوں میں اقبال احمد خان مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور کئی دہائیوں تک یہ ذمہ داری انجام دیتے رہے۔ وہ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر تک پاکستان کے تمام اہم واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ سر تا پا پاکستانی اور مسلم لیگی تھے۔ دبنگ۔ نڈر۔ دیانت دار اور بلا کے ذہین۔ آیئے دیکھتے ہیں اقبال احمد خان سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں (ادارہ)۔
س: اجلاس تو انہوں نے 3 مارچ 71ء کو ڈھاکہ میں بلالیا۔ پھر بھٹو صاحب نے 28 فروری 71ء کو مینار پاکستان تلے تقریر میں اس کا بائیکاٹ کردیا۔ یحییٰ خاں نے اجلاس ملتوی کردیا۔ بس وہیں سے معاملہ بگڑا اور پھر بگڑتا ہی چلا گیا۔
ج: ہماری اسمبلی پارٹی کی میٹنگ فروری (71ئ) میں دولتانہ صاحب کے گھر پر ہوئی۔ اس میں دولتانہ صاحب، چوہدری ظہور الٰہی، سردار شوکت حیات، پیر صاحب مکھڈ شریف، پانچویں ممبر شاید ذاکر قریشی تھے۔ ان میں نان ممبر ہم تین تھے۔ ایک میں اور دوسرے رانا خدا داد خاںؒ، تیسرے ایئر مارشل (ریٹائرڈ) نور خاں۔ فیصلہ کر رہے تھے کہ 3 مارچ والے ڈھاکہ سیشن میں جانا چاہئے کہ نہیں۔ بار بار دولتانہ صاحب کا آدمی آکے کہے کہ ٹیلی فون آیا ہے۔ دولتانہ صاحب چلے جائیں اور واپسی پر پریشان۔ آدھا رنگ ان کا پیلا پڑ چکا ہو۔ پھر پندرہ منٹ بعد فون اور میاں صاحب پریشان۔ تین چار مرتبہ ٹیلی فون سننے کے بعد کہتے ہیں کہ جنرل عمر کا ٹیلی فون ہے۔ وہ پریشرائز کر رہے ہیں کہ آپ اجلاس کے بائیکاٹ کے فیور میں فوراً قرارداد پاس کریں۔ (جنرل عمر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کے والد تھے)۔ ایئر مارشل نور خاں بہرحال، جیسے کیسے بھی ہیں، فوجی قسم کے آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا، جنرل عمر ماما لگدا اے۔ وہ کون ہوتا ہے ہمیں INSTRUCTIONS (ہدایات) دینے والا۔ یہ ہماری اپنی پارٹی کی مرضی ہے جو چاہے وہ فیصلہ کرے۔ جنرل عمر کون ہوتا ہے؟ میاں صاحب ٹیلی فون لاکے یہاں رکھیں۔ اب اگر ٹیلی فون آیا تو جنرل عمر سے میں بات کروں گا۔ یہ بھی ایئر مارشل (ریٹائرڈ) تھا۔ یہ بھی تو کھڑپینچ تھا۔ یحییٰ خاں کا ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہا اور گورنر رہا مغربی پاکستان کا۔ چوہدری ظہور الٰہی اندر سے یحییٰ خاں سے ملے ہوئے تھے۔ لڑائی ہوگئی۔ ظہور الٰہی نے ایئر مارشل کی پَت اتار دی۔ جنرل عمر گجرات کا رہنے والا تھا۔ ظہور الٰہی کے ذریعے یہ چکر چلا رہا تھا۔ وہاں لڑائی ہوگئی تو سردار شوکت حیات، نور خاں کی حمایت میں ظہور الٰہی سے لڑ پڑے۔ سردار شوکت حیات نے چوہدری ظہور الٰہی کو یہاں تک کہہ دیا کہ تو DISMISSED (برطرف شدہ) حوالدار، تجھے سیاست کا کیا پتہ۔ کافی گرمی سردی ہوئی۔ اس جھگڑے میں نور خاں واک آؤٹ کرگئے۔ انہوں نے کہا، تسی سارے … او، میں تہاڈی پارٹی وچ نئیں رہنا۔ غصے میں وہ اٹھے۔ دولتانہ صاحب منانے کے لئے اٹھے اور ان کی بانہہ پکڑ لی۔ وہ تگڑا بندہ تھا۔ اس نے بانہہ چھڑائی اور دولتانہ صاحب گر پڑے۔ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ نور خاں بانہہ چھڑا کے بھاگ گئے۔ میں اٹھا۔ مجھے دولتانہ صاحب کہتے ہیں، یار وہ غصے میں ہے۔ چل کوئی گل نئیں۔ وہ ناراض ہے۔ چل اسے سی آف کر آ۔ میں پیچھے بھاگا۔ میرے پہنچنے سے پہلے نور خاں نے کار اسٹارٹ کرلی تھی۔ انہوں نے مڑ کے دیکھا بھی نہیں اور میرے پہنچنے سے پہلے چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو رات کے کوئی بارہ بجے تک ہم صلاح کرتے رہے کہ کیا کریں۔ میاں صاحب اٹھے اور کہا، میں آتا ہوں۔ جاکے الگ بیٹھ کے ایک صفحہ انہوں نے لکھا ریزولیوشن کا۔ لاکے رکھ دیا اور کہا، میں نے ATTEMPT (کوشش) کی ہے MAY BE SUCCESSFUL (ممکن ہے بات بن جائے)۔ کوئی سمجھ نہیں آتی، DISJOINTED (بے ربط) سے خیالات ہیں۔ بہرحال آپ دیکھ لیں۔ شاید اس سے کوئی کیس بن سکے فیصلے کا۔ لو جی وہ قرارداد تو ہم نے پاس کردی۔ اندر ٹائپسٹ بٹھایا ہوا تھا۔ مجھے کہتے ہیں کہ یہ ٹائپ کراکے ایک کاپی مجھے دے دیں اور باقی اخبارات کے لئے رکھ لیں اور اخبارات کو ٹیلی فون کردیں کہ ریزولیوشن آرہا ہے۔ ایک کاپی ہم نے میاں صاحب کو دے دی۔ وہ کاپی لے کے میاں صاحب رات کے بارہ بجے غالباً جنرل عمر کو دینے چلے گئے۔
س: جنرل عمر اس وقت لاہور میں تھے۔
ج: ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ میرا ٹیوہ (اندازہ) ہے کہ وہ جنرل عمر کو کاپی دینے گئے۔ ظاہر ہے گھر سے گئے۔ کسی کو کاپی دینے ہی گئے۔
س: اس جھگڑے کے بعد پھر جنرل عمر کا ٹیلی فون آیا؟
ج: جنرل عمر کا دوبارہ ٹیلی فون نہ آیا۔
س: جنرل عمر کے پریشر پر آپ کی کونسل مسلم لیگ نے بھی ڈھاکہ سیشن کا بائیکاٹ کردیا۔
ج: سویرے جب میں نے اخبار پڑھے۔ آدھے اخبارات میں سرخی لگی تھی بائیکاٹ۔ آدھے میں سرخی لگی تھی، جارہے ہیں۔ یہ ترجمہ تھا اس قرارداد کا۔ وہ قرارداد بھی کمرشل بلڈنگ (شاہراہ قائداعظم) میں ہوئی تھی۔ اب مجھے پتہ نہیں وہ ریکارڈ کہاں گیا ہے۔ کم از کم کونسل مسلم لیگ کا سارا ریکارڈ وہاں تھا۔ اب چٹھہ صاحب مجھے کہتے تھے کہ کیا کریں نواز شریف نے جو کانفرنس کراچی میں بلائی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں وہ ڈھونڈتا ہوں۔ اگر میاں ممتاز دولتانہ کا وہ ریزولیوشن مل گیا تو اسے تھوڑا بہت امینڈ کر کے دے دیتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا فیصلہ۔ آدھے کہیں گے جانا ہے، آدھے کہیں گے نہیں جانا۔
س: نور خاں اور چوہدری ظہور الٰہی کی لڑائی کا کیا بنا؟
ج: میں بہت کم جاکے ہوٹلوں میں بیٹھتا ہوں۔ میں شیزان میں عبدالقادر حسن کے ساتھ بیٹھا تھا اور ہم چائے پی رہے تھے، اور پتہ نہیں قادر صاحب کے ساتھ کون تھا۔ اس دوران میں راجہ منور وہاں آگئے۔ قادر صاحب نے انہیں کہا، راجہ صاحب چائے پیو گے۔ انہوں نے کہا: آپاں تے بڑی سوہنی چائے پیتی اے۔ پوچھا، کہاں سے۔ کہتے ہیں، ظہور الٰہی کے پاس سے۔ اور میں ظہور الٰہی کا STATEMENT (بیان) لکھ کے آیا ہوں۔ میں نے پوچھا، راجہ صاحب کیا اسٹیٹ منٹ لکھ کے آئے ہو۔ کہنے لگے، کل پڑھ لینا اخبارات میں۔ چنانچہ سویرے اخبارات میں وہ بیان آیا۔ جو ایئر مارشل (ر) نور خاں کے خلاف تھا۔ اس دوران میں، میں نے اخبار میں پڑھا کہ ایئر مارشل استعفا دے رہے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا۔ میں نے بہتیری کوشش کی کہ آپ استعفا نہ دیں۔ میجارٹی آپ کے ساتھ ہے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ مسلم لیگ کے کارکن لیڈروں کے خلاف ہیں۔ آپ تگڑے ہوں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ایک دفعہ موقع دیں، پھر دیکھنا ہم ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے، نہیں آپ لوگ تو اس قابل ہی نہیں۔ میں تو آدمی کا انتظار کر رہا تھا، جسے استعفا دوں۔ آپ آگئے ہیں۔ انہوں نے استعفا مجھے پکڑا دیا۔ انہوں نے مسلم لیگ سے استعفا دے دیا۔ وہ کونسل مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر تھے۔ نور خاں نے اپنا دفتر بنایا تھا جٹ مینشن شاہراہ قائداعظم پر۔ چوہدری ظہور الٰہی کی بلڈنگ میں۔ وہ جگہ انہیں مفت ملی تھی۔ لیکن اس پر انہوں نے لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ اپنے پاس سے لگایا تھا، مرمت شرمت، یہ وہ۔ وہ دفتر انہوں نے چھوڑ دیا اور لارنس روڈ پر چلے گئے۔ ہارونوں کی بلڈنگ میں چھاپہ خانہ لگالیا۔
س: کرایہ پر جگہ لے کر۔
ج: نہیں، کہا یہ جاتا تھا کہ نور خاں ہارونوں (یوسف ہارون، محمود ہارون، سعید ہارون) کا چوتھا بھائی ہے۔ فنانس وہی کرتے تھے۔ مال پانی دیتے تھے۔
س: بقول آپ کے جنرل عمر میاں دولتانہ کو پریشرائز کر رہے تھے کہ 3 مارچ کے ڈھاکہ سیشن کا بائیکاٹ کرو۔ اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل یحییٰ خاں کی انگیخت پر اس سیشن کے بائیکاٹ کا سلسلہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں بالآخر پاکستان ٹوٹ گیا۔
ج: جنرل عمر کی پیر صاحب سے دوستی ہوگئی۔ پیر پگارو کے ساتھ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد۔ میں اور آفتاب فرخ، ہم بار کونسل کی میٹنگ کے واسطے گئے کراچی۔ ہم پیر صاحب سے بھی ملنے کے لئے گئے۔ یہ عمر آیا اور گزر گیا۔ پیر صاحب اندر تھے۔ آفتاب نے پوچھا، یہ بندہ کون ہے۔ میں نے کہا، جنرل عمر ہے۔ کہنے لگے، میرا اس سے تعارف نہ کرانا۔ میں نے اسے چار پانچ گالیاں نکالنی ہیں۔ میاں آفتاب فرخ بھی بڑا۔ خیر، اندر چلے گئے۔ یہ بیٹھا تھا۔ پیر صاحب کا تکیہ کلام ہے۔ ’’بابا کوئی خبر سناؤ، کوئی میٹھی سی خبر‘‘۔ میاں آفتاب فرخ چونکہ نیت کر کے گئے تھے کہ اسے گالیاں دینی ہیں اس کے سامنے۔ وہ کہتے ہیں، پیر صاحب کیا بتاؤں۔ وہ جنرل عمر پاکستان توڑنے والوں میں شامل تھا۔ اور خاں صاحب گواہ ہیں جب وہ ٹیلی فون کرتا تھا مسلم لیگ کو کہ بائیکاٹ کرو۔ اب سنا ہے کہ وہ بڑا سیاست دان بنتا ہے۔ پیر صاحب کہتے ہیں، میاں صاحب میاں صاحب، نہیں۔ جج صاحب جج صاحب، میں آپ کا تعارف کراتا ہوں۔ یہ جنرل عمر صاحب ہیں۔ (جسٹس۔ ر۔) میاں آفتاب فرخ کہتے ہیں:
SORRY GENERAL SAHIB, BUT THESE ARE MY SENTIMENTS
(جنرل صاحب مجھے افسوس ہے لیکن یہ میرے جذبات ہیں)۔ اس نے کہا آپ لوگوں کو صحیح صورت حال کا علم نہیں ہے۔
س: صحیح صورت حال کا علم نہیں۔ جنرل یحییٰ خاں اینڈ کمپنی کا یہی موقف ہے کہ اگر ڈھاکہ سیشن ہوجاتا تو مجیب نے چھ نکات کی بنیاد پر آئین بنا دینا تھا جس میں دو نہیں، پانچ پاکستان بنتے۔ جبکہ یہاں مغربی پاکستان کے ان ممبرز نے جو پیپلز پارٹی کے علاوہ تھے، یو سی پی (یونائٹیڈ کولیشن پارٹی) کی تشکیل دے دی تھی۔ جس کا مقصد مجیب کو مغربی پاکستان میں سپورٹ دینا تھا۔ اس پر بھٹو صاحب بڑے مشتعل ہوئے تھے۔ اس وقت یہی تاثر تھا کہ یو سی پی میاں دولتانہ کی اختراع ہے۔
ج: شیخ مجیب کی طرف سے عوامی لیگ کے عبدالصمد نے آکے دولتانہ صاحب کو پریس کیا کہ ویسٹ پاکستان کے 54 ممبرز پیپلز پارٹی کے خلاف اکٹھے ہوجاؤ۔ اسمبلی کا اجلاس ہو تو چون کے چون آؤ۔ پیپلز پارٹی والوں کی پرواہ نہ کرو۔ مسودۂ آئین جو ہم نے تیار کیا ہے، وہ ہم آپ کو بھیج دیتے ہیں۔ آپ اس میں جو ترمیم کریں گے وہ ہمیں منظور ہے۔ اسمبلی میں میجارٹی پارٹی کی طرف سے میں مسودۂ آئین انٹروڈیوس کروں گا۔ اور آپ ویسٹ پاکستان کی طرف سے ترمیمیں پیش کرنا۔ ہم بغیر ڈسکشن کے مان لیں گے۔ اس طرح آئین بنالیں گے۔ آئین بن جائے گا تو میں تقریر کروں گا کہ 6 نکات پر آئین بن گیا ہے۔ آپ بھی تقریر کرنا کہ ایک پاکستان کا آئین بنالیا ہے۔ آئین میں ایک شق رکھ دینی ہے کہ جو ممبر اس آئین کے تحت اتنے عرصے میں حلف نہیں لیتا، اس کی ممبر شب کینسل۔ بھٹو نے کبھی اس آئین کو نہیں ماننا۔ نہ اس نے اپنے ممبروں کو حلف اٹھانے دینا ہے۔ ہم ان کی رکنیت ختم کر دیں گے۔ ان سیٹوں پر الیکشن کرائیں گے۔ ان کی اسّی سیٹوں پر آپ سارے اپنے آدمی آگے لے آنا۔ حکومت ہم نے فارم کرنی ہے۔ پرائم منسٹر میں
نے بننا ہے۔ ویسٹ پاکستان کے آپ لیڈر ہوں گے۔ آپ ذرا پہلے ڈھاکہ آجائیں۔ دولتانہ صاحب نے جواب دیا کہ میں پہلے تو نہیں آسکتا۔ جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوجائے گا تو ایک آدھ دن میں آجاؤں گا۔
س: یہ بات دولتانہ صاحب نے آپ کو بتائی یا آپ کے سامنے عبدالصمد نے ان سے ملاقات کی۔
ج: اس نے میرے سامنے میاں ممتاز دولتانہ کو مجیب الرحمن کا یہ میسج دیا۔ میں اس کا گواہ ہوں۔
٭٭٭٭٭