بھارتی میڈیا چاہ بہار حملے کا الزام پاکستان پر تھوپنے لگا

0

احمد نجیب زادے
بھارتی میڈیا چاہ بہار حملے کا الزام پاکستان پر تھوپنے لگا۔ بھارتی جرائد کا کہنا ہے کہ ایران کے ساحلی شہر چاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر کار بم دھماکہ اصل میں نئی دہلی کے معاشی مفادات پر اٹیک تھا۔ انڈین میڈیا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف یہ زہریلا پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے کہ چاہ بہار واقعہ وسط ایشیا اور مشرقی یورپ تک بھارت کی آسان رسائی روکنے کی سازش ہے، جبکہ ایرانی سرزمین پر ایسی مزید کارروائیوں کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ ادھر چینل نیوز ایشیا کا کہنا ہے کہ ایران میں نصف درجن سے زائد جنگجو تنظیمیں متحرک ہیں۔ جبکہ چاہ بہار حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم ’’انصار الفرقان‘‘ نے بظاہر اپنے عسکری رہنما مولوی جلیل قنبرزئی کی ہلاکت کا بدلہ لیا ہے، جنہیں ایرانی سیکورٹی فورسز نے جون 2018ء میں ایک آپریشن میں سیستان ریجن میں نشانہ بنایا تھا۔ آن لائن جریدے گلوبل ولیج کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چند برس میں سنی العقیدہ اور کرد جنگجو گروپوں نے ایرانی حکومت کے خلاف کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ان شدت پسند گروپس کا موقف ہے کہ تہران حکومت ایک مخصوص طبقہ فکر کو نوازتی ہے اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف مسلسل کریک ڈائون کرتی ہے، جو پہلے ہی معاشی اعتبار سے نظر انداز کی جاتی رہی ہیں۔ جبکہ ایرانی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ واضح رہے کہ چاہ بہار حملے کی ابتدائی رپورٹ میں فارس نیوز کا دعویٰ تھا کہ دھماکے میں پولیس کا مقامی سربراہ بھی ہلاک ہوا ہے۔ لیکن بعد ازاں اس خبر کی تردید جاری کردی گئی۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا نے چاہ بہار پر حملے میں ملوث گروپ کو ’’پاکستانی اثاثہ‘‘ قرار دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ چاہ بہار زون سے نئی دہلی کے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ بھارت اس وقت نہ صرف چاہ بہار بندرگاہ کی برتھیں مالکانہ حقوق کے تحت استعمال کر رہا ہے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر چاہ بہار سے زاہدان شہر تک ریلوے لائنیں بھی بچھا رہا ہے اور اپنے تجارتی نیٹ ورک وسط ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ تک پھیلانے کی فکر میں ہے۔ عراقی جریدے کردستان 24 نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ چاہ بہار حملے میں بارود سے بھری کار ہدف تک جا نہیں سکی، اسی لئے ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد لگ بھگ 40 تک محدود رہی۔ اگر یہ کار ہدف تک پہنچ جاتی تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ تھا۔ ایرانی پولیس کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’انصار الفرقان‘‘ نامی جنگجو گروپ 2013ء میں قائم ہوا تھا اور اس وقت اس کا نام ’’حرکت الانصار‘‘ تھا۔ اس کے متوازی ایک اور جنگجو تنظیم ’’حزب الفرقان‘‘ بھی قائم ہوئی تھی۔ تاہم دونوں کا مقصد یکساں ہونے کے سبب اگلے برسوں میں دونوں تنظیموں حرکت الانصار اور حزب الفرقان کو ضم کرکے نئی تنظیم ’’انصارالفرقان‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس تنظیم کے ارکان کا تعلق ایرانی بلوچستان اور سیستان سے ہے، جہاں یہ گروپ مسلسل کارروائیاں کرتا ہے۔ رواں برس ہی جون کے مہینے میں ایرانی سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں اس تنظیم کے سربراہ مولوی عبد الجلیل قمبرزئی کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ خوزستان میں تیل کی پائپ لائن تباہ کرنے کے بعد اہواز میں فوجی پیریڈ کو سبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ گزشتہ ماہ ایرانی بارڈر گارڈز کے اغوا کی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ متعدد عسکری گروہ ایران کے خلاف سرگرم ہیں۔ بھارتی صحافی دپنجن روئے چودھری نے بتایا ہے کہ بھارت نے ایرانی حکومت کو چاہ بہار حملوں کی تحقیقات میں معاونت کی پیشکش کی ہے۔ اکنامک ٹائمز کے نامہ نگار نے یہ زہر بھی اگلا ہے کہ اگر پاکستان ان جنگجو گروپوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرتا تو ایرانی سیکورٹی فورسز ان جنگجوئوں کے اڈوں پر کارروائی کیلئے پاکستانی سرزمین میں گھس سکتی ہیں۔ جریدے نے لکھا ہے کہ انصارالفرقان کی خواہر تنظیم جیش محمد 2011ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملو ں کی ذمہ دار ہے، اس لئے ایرانی اور بھارتی حکومتوں کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔ واضح رہے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے مطابق چاہ بہار حملے میں بیرونی ہاتھ کارفرما ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More