سید نبیل اختر
کراچی سرکلر ریلوے کے گیلانی اسٹیشن سے ڈپو ہل تک 4 اسٹیشنوں کے اطراف ساڑھے10ایکٹر اراضی پر تجاوزات قائم ہیں۔ ان تجاوزات میں ہزاروں کی تعداد میں جھگیاں، 2 ہزارسے زائد کچے پکے مکانات اور بلند و بالا بلڈنگز شامل ہیں۔ بلڈز مافیا نے بھی لاوارث سمجھ کر ریلوے اراضی پر دھڑلے سے ہاتھ صاف کیا۔ ریلوے عملے کی غفلت کے باعث اسٹیشن کھنڈر بن گئے، بعض جگہ آلات کی ’’باقیات‘‘ اب بھی موجود ہیں۔ بعض اسٹیشنوں کی ابتر حالت دیکھ کر بلدیہ عظمیٰ کراچی نے مستقل کچرا کنڈیاں بھی بنادیں۔ کے ایم سی کے حالیہ آپریشن میں بھی سرکلر ریلوے کی اراضی پر قائم پتھارے تاحال کارروائی سے محفوظ ہیں۔ کے ایم سی اینٹی انکروچمنٹ ڈپارٹمنٹ کا اسٹور بھی ریلوے اراضی پر قائم تجاوزات کا حصہ ہے ۔
’’امت‘‘ نے لیاقت آباد سے گیلانی اسٹیشن کا رخ کیا تو ہوشربا تجاوزات دیکھنے کو ملیں جن میں ہزاروں جھگیاں، بلڈنگز اور کچے پکے دو ہزار سے زائد مکانات تھے۔ سروے سے پتا چلا کہ لیاقت آباد اسٹیشن پر بلوچ ہوٹل سے گلشن اقبال بلاک 13 ڈی سے ہوتے ہوئے یہ ٹریک گیلانی اسٹیشن کو جاتا ہے۔ ’’امت‘‘ کی ٹیم نے گیلانی اسٹیشن کا سروے کیا تو مشاہدے میں آیاکہ اب کراچی سرکلر ریلوے کا گیلانی اسٹیشن منشیات فروشوں کی آماج گاہ بن چکا ہے، جہاں رات کے اوقات منشیات فروشی کا دھندہ بھی کیا جاتاہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائم کی واردات کرنے والے عادی مجرم یہاں رات میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ سرکلر ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف غیر قانونی طور پر جھگیوں کی بھرمار ہے، جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ جھگیوں کے خلاف علاقہ مکینوں نے پولیس کو کارروائی کی متعدد درخواستیں دی ہیں لیکن مقامی تھانہ ان جھگیوں سے منتھلی وصولی کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ پولیس کے بعد لسانی جماعت کے دہشت گرد بھی ان عارضی مکینوں سے بھتہ وصول کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات سے پتا چلا کہ ان جھگیوں کے مکینوں کو فی کس 2 ہزار روپے تک بھتہ ادا کرنا پڑتا ہے اور انہیں اس رقم کے بعد یہ ضمانت دی جاتی ہے کہ انہیں یہاں سے کوئی نہیں ہٹائے گا۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ گیلانی اسٹیشن پر بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے ٹریک پر کچرا کنڈی بھی قائم کردی گئی ہے، جہاں پورے اضلاع سے کچرا لا کر پھینکا جاتا ہے جس سے پورے علاقے میں تعفن پھیل رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو مقامی افراد نے بتا یا کہ ٹریک کو صاف اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری شہری حکومت کی تھی۔ تاہم شہری حکومت نے بھتے کے عوض غیر قانونی طور پر پتھارے اور جھگیاں قائم کروائی۔ بعض مقامی افراد کا کہنا تھا کہ جھگی کے مکینوںکی اس میں کوئی غلطی نہیں کیونکہ جب ان کی استطاعت ہی نہیں کہ وہ کہیں کرائے پر رہائش اختیار کرسکیں تو وہ اسی طرح جھگیاں قائم کرکے اپنا گزر بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ان کو بے آسرا کرنا بھی انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے، جھگیاں خالی کرائی جائیں تو ان کے لیئے بھی متبادل جگہ کا انتظام کیا جانا چاہیئے جیسے غیر قانونی فلیٹس کے مکینوں کو متبادل دینے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ سرکلر ریلوے کے ٹریک کی بحالی سے انہیں سستی ٹرانسپورٹ کی سہولت سمیت جرائم پیشہ افراد اورکچرے کے ڈھیر سے بھی نجات مل جائے گی۔
مشاہدے میں آیا کہ گیلانی اسٹیشن سے یہ ٹریک اردو سائنس کالج اسٹیشن کی جانب جاتا ہے۔ مذکورہ ٹریک پر300 سے زائد جھگیاں قائم ہیں، اردو سائنس اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور ٹریک پر جھگی قابضین موجود ہیں۔ اسی طرح اردو سائنس اسٹیشن کے ٹکٹ گھر اور ریلوے کوارٹر ز پر بھی قبضہ مافیا کے کارندوں نے رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ یہ ٹریک یونیورسٹی روڈ پھاٹک تک جاتا ہے۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ اردو سائنس اسٹیشن سے لے کر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی تک ٹریک پر 550 سے زائد جھگیاں موجود ہی۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ جھگیوں کو ہٹانے کے لئے ریلوے ملازمین کی جانب سے2017ء میں سروے کیا گیا تھا۔ تاہم ریلوے ملازمین نے ٹریک پر جھگیوں والوں سے فی جھگی 2 ہزار رشوت وصول کی اور ہر ماہ یہ رقم ادا کرنے تک انہیں جھگیاں قائم رکھنے کی یقین دہانی کرادی۔ جھگی کے ایک رہائشی نے بتایا کہ وہ گزشتہ 40 سال سے یہاں رہائش پزیر ہے۔ اس کے بقول پہلے یہاں سب جھگیاں ہوتی تھی۔ جھگیاں یونیورسٹی روڈ، ڈسکو بیکری اور گلشن اقبال کے علاقوں میں بھی قائم تھیں۔ تاہم انتظامیہ کی مداخلت پر بعض مقامات سے جھگیاں ہٹائی جاتی رہیں۔ ایک اور جھگی کے رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریلوے ملازمین ان سے ماہانہ بھتہ وصول کرنے آتے ہیں جبکہ جھگیوں کے رہائشیوںکو پانی کی لائنیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ ہزار روپے کی یکمشت ادائیگی کرنے پر کے الیکٹرک حکام نے انہیں بجلی بھی فراہم کی ہے جس کا باقائدہ بل ہر ماہ موصول ہوتا ہے۔ ایک جھگی کے رہائشی غلام بشیر کا کہنا تھا کہ گلشن اقبال میں 1977ء سے یہ جھگیاں قائم ہیں۔ جھگیوں کے رہائشیوں کو متبادل رہائش دلانے کیلئے انہوں نے حکومت اداروں سے متعدد بار رابطے کئے پر ان کی کسی نے درد رسی نہ کی۔ جھگیوں کے مکینوں کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کی روح کے مطابق شہریوں کو رہائش فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مکینوں کا کہنا تھاکہ حکومت اگر انہیں کراچی کے کسی بھی علاقے میں رہائش دے دیتی ہے تو وہ قسطوں میں اس کی ادائیگی کرنے کو بھی تیار ہیں۔ سرکلر ریلوے کی اراضی پر موجود قابضین کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے انکار نہیں کہ وہ یہاں غیر قانونی طور پر رہائش پزیر ہیں۔ معلوم ہوا کہ جھگیوں کے رہائشیوں کو شناختی کارڈ تو جاری کئے گئے ہیں تاہم ووٹر لسٹ میں اندراج نہیں کیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو سروے کے دوران معلوم ہوا کہ یونیورسٹی روڈ پر عزیز بھٹی اسٹیشن اب کھنڈر بن چکا ہے۔ مذکورہ اسٹیشن کے ٹکٹ گھر اور دفاتر خستہ حالی کا شکار ہیں۔ مشاہدے میں آیا کہ یونیورسٹی روڈ کراسنگ پر سیمنٹ سے تیار کردہ سامان کی فیکٹری موجود ہے۔ مذکورہ نرسری اور فیکٹری موجود افراد کے مطابق وہ لوگ پابندی کے ساتھ اس کا کرایہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو جمع کراتے ہیں۔ وہیں موجود افراد کا کہنا تھا کہ جب جھگیاں ختم کی جائیں گی تو وہ بھی اس غیر قانونی قبضہ کو چھوڑ دیں گے ۔
عزیز بھٹی سے یہ ٹریک نیپا کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ نیپا کے پل کے نیچے ٹریک پر بے تحاشہ پتھارے لگے ہوئے ہیں جن کے خلاف حالیہ آپریشن میں بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔مشاہدے میں آیا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی اینٹی انکروچمنٹ کا دفتر بھی نیپا پل کے نیچے واقع ہے۔ معلوم ہوا کہ نیپا پل کے نیچے پتھاروں سے بلدیہ عظمیٰ اینٹی انکروچمنٹ کے ملازمین ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ نیپا سے ہوتا ہوا یہ ٹریک یونیورسٹی اسٹیشن کی جانب جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ ٹریک پر 500 سے زائد تجاوزات
ہیں۔ تجاوزات نیپا پر موجود فلیٹس کی جانب سے قائم کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے ریلوے ٹریک کو تباہ کردیا گیا اور تعمیراتی ملبہ ڈال کروہاں غیر قانونی پارکنگ قائم کردی گئی ہے جہاں اطراف کے فلیٹوں کی چارج پارکنگ کی جارہی ہے۔ مقامی افراد نے بتا یا کہ گزشتہ 10 سال سے ان غیر قانونی پارکنگ کے خلاف نہ تو ریلوے حکام نے کوئی کارروائی کی ہے اور نہ ہی مقامی انتظامیہ نے کوئی ایکشن لیا ہے ۔
مشاہدے میں آیا کہ مذکورہ ٹریک بینظیر بستی سے ہوتے ہوئے حسین ہزارہ گوٹھ کی طرف جاتا ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی مکانات بنائے گئے ہیں۔ ان کے پاس کسی قسم کی دستاویزات بھی نہیں۔ یہاں پہلے کچے مکانات بنائے گئے بعد ازاں سیاسی سرپرستی میں ان کچے مکانات کو پکے مکانات میں تبدیل کیا گیا جن میں سے بعض دو اور تین منزلہ ہیں ۔ بے نظیر بستی کے ایک رہائشی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے میڈیا میں ریلوے سرکلر ٹرین کی بحالی سے متعلق خبریں سنی ہیں لیکن ریلوے سمیت کسی بھی حکومتی ادارے نے ابھی تک علاقے مکینوں کو نوٹس نہیں دیئے ہیں۔ جب کارروائی شروع ہوگی تو دیکھا جائے گا۔ کیونکہ دو سال پہلے بھی ایسی ہی اطلاعات تھیں کہ سرکلر ریلوے بحال ہورہی ہے۔ لیکن آج تک نہیں ہوئی اور ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ بھی سرکلر ٹرین چلائے جانے کا اعلانمحض اعلان کی حد تک ہی محدود رہے گا ۔
’’امت‘‘ کو سروے کے دوران معلوم ہوا کہ یہی ریلوے ٹریک حسین ہزارہ گوٹھ، گلستان جوہر سے ہوتا ہوا ڈرگ روڈ جاتا ہے۔ سروے کے دوران حسین ہزار ہ گوٹھ میں خطرناک دلدل اور نالے نظر آئے جن کے نیچے پٹریاں کئی فٹ تک نیچے دفن ہوچکی ہیں۔ مقامی افراد نے بتا یا کہ گلستان جوہر سے گزرنے والا یہ ریلوے ٹریک 15 فٹ سے زیادہ گہرے نالے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ریلوے کے ٹریک سے متصل ریلوے ہاؤسنگ پروجیکٹ اور اطراف کے بنگلوں، فلیٹس اور شادی ہال کی سیورج لائنیں ریلوے ٹریک پر نکالی گئیں جس سے ریلوے ٹریک مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ یہاں بڑے پیمانے پر مقامی رہائشیوں کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کی گئیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ سرکولر ریلوے یونیورسٹی اسٹیشن سے متصل اور حسین ہزارہ گوٹھ کے اطراف کثیر المنزلہ رہائشی فلیٹس اور عمارتیں قائم ہیں جن کا سیوریج کا پانی گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ریلوے ٹریک پر ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دو سے ڈھائی کلومیٹر کا علاقہ سیوریج نالے اور دلدلی علاقے میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ رہائشیوں کے مطابق یہ ریلوے ٹریک اب خطرناک نالے کی شکل اختیار کرچکاہے۔ وہیں کے ایک رہائشی نے بتایا کہ وہ گزشتہ 3 سال سے اس علاقے میں رہائش پزیر ہیں۔ اطراف کی آبادیوں کے سیورج لائنوں کے پانی کے ساتھ ساتھ اطراف میں جاری غیر قانونی تعمیرات کا ملبہ بھی مسلسل ریلوے ٹریک پر ڈالا جارہا ہے جس کی وجہ سے ریل کی پٹریوں کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق ریلوے اور ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہی کی وجہ سے نشے کے عادی افراد نے سرکولر ریلوے کے پل کا جنگلہ اور لوہے کے سامان و آلات اکھاڑ کر فروخت کردیئے ہیں۔ اب صرف کنکریٹ والا حصہ ہی محفوظ ہے جسے سرکلر ریلوے کی باقیات قرار دیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭