چینی پولیس نے خوش قسمتی کا درخت کاٹ ڈالا

0

ایس اے اعظمی
چینی پولیس نے جوار کے ایک ایسے درخت نما پودے کو کاٹ ڈالا جو عوام میں توہم پرستی کو جنم دے رہا تھا۔ عوام نے اس غیر معمولی اونچے جوار کے پودے کو ’’خوش قسمت‘‘ قرار دیا تھا، جس کے پاس آکر منتیں مانگنے سے تمام خواہشات پوری ہونے کا دعوی کیا جا رہا تھا اور روزانہ ایک ہزار سے زائد چینی باشندے آکر اس جوار کے درخت کی پوجا کر رہے تھے۔ توہم پرست ان حرکات کی ویڈیوز کو سوشل سائٹس پر بھی ڈال رہے تھے جس سے اس علاقہ میں عجیب و غریب ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ مقامی عوام میں یہ تاثر راسخ ہے کہ جوار کا جو پودا غیرمعمولی طور پر اونچا ہوجاتا ہے، اس میں جادوئی قوتیں یا خوش قسمتی کا عنصر ہوتا ہے اور ایسے پودے اپنے اندر روحانی طاقتیں رکھتے ہیں اور ’’بادشاہ گر‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ لیکن چینی حکام کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات مذہبی کتابوں میں موجود نہیں ہے اور پودے کو ’’مقدس درخت‘‘ بنا کر اس کی پوجا کی جارہی تھی جس کا سد باب کردیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ دیکھنے میں غیر معمولی جوار کا یہ پودا عوام الناس میں توہم پرستی کو پھیلا رہا تھا اور اس سے جڑی خوش قسمتی کی افواہوں اور لوگوں کی من گھڑت کہانیوں کے سبب مقامی اور غیر مقامی چینی عوام و خواص نے درخت کی ’’پوجا‘‘ شروع کردی تھی۔ عام طور پر جوار کے پودے مویشیوں کی غذا کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں اور دانوں کو انسانوں کی خوراک کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ جبکہ اس سے چینی کسان روایتی شراب ’’بائی جو‘‘ بھی بناتے ہیں جو علاقائی کسانوں میں مقبول ہے۔ واضح رہے کہ چینی معاشرے میں جادو ٹونے سمیت غیر ماورائی قوتوں کا حصول ایک عام پریکٹس ہے اور چینی عوام میں من پسند بیاہ رچانے، مال و دولت جمع کرنے سمیت بیماریوں سے نجات کیلئے عامل حضرات کے پاس جانے کا رواج عام ہے، لیکن یہ پہلی بار ہوا تھا کہ جوار کا ایک پودا غیر معمولی طور پر بہت اونچا ہوگیا اور مقامی کسانوں اور دیہاتیوں نے اس سے طرح طرح کی کہانیاں اور داستانیں منسوب کردیں۔ اس پودے کو خوش قسمتی اور تقدیر بدلنے والا قرار دیدیا اور بعضوں نے تو یہ کہانی بھی بیان کردی کہ اس پودے کی پوجا کرنے اور اس کو چھونے والا فرد کسی بھی قسم کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتا اور اگر وہ کینسر یا کسی اور موذی بیماری میں مبتلا ہو بھی گیا تو اس کو صحت مل جائے گی۔ واضح رہے کہ 2017ء میں بھی چینی حکومت نے عوامی توجہ کا مرکز بن جانے والے ایک بڑے سائز کے ’’مشروم‘‘ یا کھمبی کو بھی تباہ کردیا تھا جس کی سر عام پوجا کی جارہی تھی اور چین کے ضعیف العقیدہ عوام اس کو بھی منتیں مرادیں مانگنے کیلئے پوج رہے تھے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا ہے کہ واقعہ شین ڈونگ ریاست میں ہیز ڈسٹرکٹ کے فانگ شان گائوں میں پیش آیا جہاں سینکڑوں دیہاتیوں نے اپنی خوش عقیدگی کے سبب جوار کے 18 فٹ تک طویل ہوجانے والے درخت کی پوجا شروع کردی تھی اور اس کو انتہائی خوش قسمت درخت قرار دیا تھا۔ چینی میڈیا میں دکھائی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے کہ جوار کا یہ دیو قامت پودا مزید نشونما پارہا تھا اور اس درخت کے اطراف چینی توہم پرستوں نے جھنڈے اور کپڑے لگا رکھے تھے اور روزانہ اس درخت کو دیکھنے کیلئے بڑی تعداد میں ’’شائقین‘‘ او ر منتیں مرادیں مانگنے والے جمع ہورہے تھے، جس کی اطلاع حکومت کو ملی اور مقامی چینی ریاستی حکام نے اعلیٰ چینی قیادت کو مطلع کرکے اس جوار کے پودے نما درخت کو جڑ سے کاٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا، جس پر مقامی چینیوں نے مزاحمت کا اعلان کیا اور اس فعل کو علاقہ اور اہل علاقہ کیلئے ’’بد شگونی‘‘ بھی قرار دیا لیکن چینی حکام نے اس درخت کو کلہاڑی سے کاٹ دینے کے اعلان پر گزشتہ سے پیوستہ روز عمل کردیا جس کیلئے مقامی پولیس کا ایک دستہ الیکٹرونک آری مشین کے ساتھ علاقت میں پہنچا، جس کے بعد ایک کمانڈر پولیس نے درخت کاٹ دیا، جس کے بعد اس درخت کے کئی ٹکڑے کردیئے گئے جن کو حاصل کرنے کیلئے مقامی چینیوں نے پولیس سے درخواست کی کہ ان کو جوار کے اس خوش قسمت درخت کی جڑ اور تنے کے حصے کاٹ کر دے دیئے جائیں تاکہ وہ اس خوش قسمتی والے درخت کو اپنے پاس محفوظ کر سکیں۔ لیکن پولیس حکام نے چینی عوام کا یہ مطالبہ بھی ماننے سے انکار کردیا اور تمام ٹکڑوں کو دیکھتے ہی دیکھتے میں پولیس حکام نے آگ لگا کر خاکستر کرڈالا۔ جوار کے اس درخت کو کاٹ کر ٹکڑے کرنے اور بعد ازاں نذر آتش کردینے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک چینی پولیس کمانڈر کا کہنا تھا کہ اس پورے قضیہ کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہی تھا کہ اس کو بھسم کردیا جائے اور کسی کو بھی مستقبل میں توہم پرستی سے بچایا جاسکے۔ چینی خبر رساں ادارے اور مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ خوش قسمتی کا نام پانے والے اس جوار کے درخت کے پاس سینکڑوں لوگ روزانہ آرہے تھے اور علاقہ میں اس درخت کے سبب امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہورہے تھے کیونکہ درخت کے کچھ مقامی دعویداروں نے اس کی زیارت کیلئے آنے والوں سے ’’نذرانہ‘‘ اور عقیدت مندوں سے ’’چندہ‘‘ وصول کرنا شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کی دیکھا دیکھی دیگر افراد بھی’’چندے کے دھندے‘‘ میں ملوث ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے مقامی باشندوں میں ہشت مشت بھی ہو رہی تھی اور پولیس اس صورت حال کو بڑی باریک بینی سے مانیٹر کررہی تھی، لیکن بعض حکام نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پولیس کے بہت سے مقامی افسران اور اہل کاروںنے خوش قسمت درخت کو کاٹنے کی خود بھی مخالفت کی تھی کیونکہ ان کو اپنی توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کے سبب یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ اگر وہ اس درخت کو اعلیٰ قیادت کے احکامات پر کاٹنے کیلئے گئے تو یہ ان کی ’’بد قسمتی‘‘ کا آغاز ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ اس خوش قسمت درخت کو کاٹنے کے بعد بری موت یا بیماریوں کا شکار ہوجائیں یا ان پر کسی قسم کی آفات و بلیات نازل ہوجائیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More