امت رپورٹ
خطے کے بہت سے اسٹیک ہولڈر افغانستان میں فوری امن کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکہ نے افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اور اب اپنی ان کوششوں کے لئے اسے ایک بار پھر پاکستان کی مدد درکار ہے۔ پاکستان سے امریکہ کس قسم کا تعاون چاہتا ہے؟ اس بارے میں سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے تاہم امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ جو طالبان امن معاہدے پر تیار نہیں، انہیں بزور طاقت مجبور کیا جائے یعنی دوسرے معنوں میں ان سے لڑا جائے۔ یہی پیغام دینے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پاکستان آئے تھے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ اس امریکی خواہش کے جواب میں پاکستان نے واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو بتا دیا ہے کہ اول، اب پاکستان کا افغان طالبان پر پہلے جیسا اثر و رسوخ نہیں تاہم جو تھوڑا بہت اثر ہے، اس کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کو امن مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم یہ ممکن نہیں کہ پاکستان امن مذاکرات سے انکاری افغان طالبان کا بازو مروڑے۔ کیونکہ پاکستان اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا۔
دوہا میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ طالبان پہلے سیز فائر اور پھر سرنڈر کریں۔ اس کے بعد اصل مذاکرات شروع کئے جائیں۔ تاہم طالبان نے امریکی مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور جواب میں اپنے مطالبات رکھے ہیں کہ اگر امریکہ مکمل طور پر افغانستان سے نکل جانے کا فوری اعلان نہیں بھی کرتا، تو کم از کم فوجی انخلاء کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن دے دی جائے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ یہ مطالبہ ماننے سے گریزاں ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حالات میں واشنگٹن افغانستان سے نکلنے کی ڈیڈ لائن کا اعلان کرتا ہے تو طالبان کا پلڑا مزید بھاری ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے چند روز پہلے نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے غیر ملکی افواج 2024ء تک افغانستان میں رکھنے کا اعلان کیا۔ اس کے نتیجے میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوہا میں جاری امن مذاکرات غیر یقینی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ پاکستان کے ذریعے اپنی شرائط پر طالبان سے معاہدہ چاہتا ہے۔ جس میں طالبان کو بزور طاقت آمادہ کرنے کا آپشن شامل ہے۔ تاہم جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ پاکستان اس پر تیار نہیں۔
ذرائع کے مطابق جس طرح پینٹاگون اور سی آئی اے نے اوباما کو مجبور کیا تھا کہ وہ افغانستان سے تمام افواج نہ نکالے۔ اب اسی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ پر حاوی ہو گئی ہے۔ اس کا اندازہ افغان طالبان کو بھی ہے اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ امن مذاکرات سبوتاژ کرانے کے لئے پینٹاگون متحرک ہو چکا ہے۔ پھر طالبان کو یہ شک بھی ہے کہ امریکہ معاہدہ کر کے کل مکر نہ جائے، جیسا کہ اس نے ایران کے ساتھ کیا۔ لہٰذا اب طالبان اس پر غور کر رہے ہیں کہ وہ دوہا مذاکرات سے نکلنے کا باقاعدہ اعلان کر دیں اور اپنے حملوں میں مزید تیزی لے آئیں۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں اس وقت طالبان اور غیر ملکی افواج، دونوں کی کوشش ہے کہ Military Edge (فوجی برتری) لے لیں، تاکہ مذاکرات کے لئے بارگیننگ پوزیشن بہتر بنا سکیں۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ طالبان کو ملٹری ایج حاصل ہے اور وہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ صرف پینٹاگون اور سی آئی اے ہی افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا نہیں چاہتے۔ ڈرگ مافیا ، پرائیویٹ کنٹریکٹرز، بھارت اور اسرائیل بھی اس حوالے سے پینٹاگون کے ہمنوا ہیں۔ کیونکہ غیر ملکی افواج کی زیر سرپرستی پوست کی کاشت سے ڈرگ مافیا اربوں روپے سالانہ کما رہی ہے۔ فوجی انخلاء اور طالبان سے امن معاہدے کے نتیجے میں ڈرگ مافیا کا دھندہ چوپٹ ہو جائے گا۔ اسی طرح ذرائع کے بقول افغانستان میں اس وقت پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز کے 80 ہزار اہلکار کام کر رہے ہیں۔ امن معاہدے پر عمل سے ان کی دکان بھی بند ہو جائے گا۔ جبکہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف جاری پراکسی وار بھی متاثر ہو گی۔ لہٰذا بھارت اور اس کے اتحادی اسرائیل کی بھی خواہش ہے کہ غیر ملکی افواج افغانستان میں موجود رہیں اور امریکی کٹھ پتلی کابل حکومت کام کرتی رہے۔
ذرائع کے مطابق افغانستان میں جو صورت حال ہے، وہ طالبان کو تو کسی نہ کسی طرح سوٹ کرتی ہے لیکن امریکہ کو بالکل سوٹ نہیں کرتی۔ جبکہ روس اور چین کے لئے بھی خطرہ بنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے یہ دونوں ممالک بھی بہت زیادہ بے چین ہیں۔ ذرائع کے بقول روس اپنے پڑوس میں داعش کے بڑھتے اثر و رسوخ سے پریشان ہے، کیونکہ داعش میں ازبک اور تاجک جنگجوئوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شامل ہے۔ اسی طرح چین کی خواہش ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن قائم ہو جائے کیونکہ دوسری صورت میں اس کا ون بیلٹ، ون روڈ کا پروجیکٹ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ دونوں ممالک بھی افغانستان میں قیام امن کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک افغانستان میں غیر ملکی افواج رہیں گی۔ کابل میں امریکی نواز اتحادی حکومت رہے گی۔ بھارتی اثر و رسوخ جاری رہے گا۔غیر ملکی ایجنسیان اپنی پراکسی وار کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتی رہیں گی۔
اس ساری صورت حال پر معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو جو لیٹر لکھا، اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ امریکہ جب بھی خود کو کمزور حالت میں محسوس کرتا ہے، اس کی طرف سے اسی نوعیت کے دوستانہ اشارے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن مطلب پورا ہونے پر وہ آنکھیں بدل لیتا ہے۔ اب واشنگٹن کی منشا ہے کہ کسی طرح مضبوط پوزیشن میں رہ کر طالبان سے امن معاہدہ کر لے۔ اس کے لئے وہ پاکستان کی مدد چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ نائن الیون کے بعد امریکی، اسرائیلی گٹھ جوڑ نے اپنے کچھ مقاصد طے کر لئے تھے۔ اس میں پاکستان کو نشانہ بنانا بھی شامل تھا۔ ان مقاصد میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ امریکہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا، جس سے بھارت ناراض اور پاکستان خوش ہو۔ جبکہ پاکستان، امریکہ کے سیکورٹی پیرا میٹرز میں فٹ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان ایک مسلم نیو کلیئر ملک ہے اور اس کا چین سے الائنس ہے۔ اس لئے امریکہ اپنے مختصر مدت کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے تو پاکستان کو استعمال کرتا رہے گا لیکن طویل مدتی پارٹنر کبھی نہیں بنائے گا۔ بدقسمتی سے پچھلی کئی دہائیوں سے دھوکا کھائے جانے کے باوجود پاکستانی لیڈر شپ امریکی سحر سے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔ ٹرمپ کے لیٹر پر خوشی سے بغلیں بجانے کے بجائے پاکستان کو اپنے مفادات دیکھ کر قدم اٹھانا ہو گا۔ تاکہ ماضی کی روایات کو توڑا جا سکے۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا مزید کہنا تھا ’’ امریکہ ایک بار پھر اپنے مقصد کے لئے پاکستان کو دوستانہ Gesture دے رہا ہے۔ اصل Change of Heart (دل بدلنا) اس وقت نظر آئے گا جب امریکہ اور اس کے اتحادی خود پر سے مظلومیت کا خول اتار دیں گے اور دہشت گردی کے اصل Victim پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ ترک کر دیں گے۔ اسی طرح جب امریکہ ہمارے تحفظات کو سنجیدگی سے لے گا، دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف بننے والے محاذوں کو روکے گا۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے بھارتی قونصل خانے بند کرائے گا۔ تو پھر ہی کہا جا سکے گا کہ امریکہ کا دل اب پاکستان کی طرف سے صاف ہو گیا ہے۔ جس کا فی الحال کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس وقت کابل حکومت، امریکہ، روس، چین، ایران اور خلیجی ریاستوں سمیت سب کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح طالبان کو اپنا دوست بنا لیں۔ تو پھر ہم کیوں شرمندہ ہیں؟ جب ہم کھل کر طالبان کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ان کی اخلاقی سپورٹ نہیں کر رہے بلکہ غیر ملکی افواج کے خلاف ان کی کارروائیوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں تو پھر طالبان پر ہمارا اثر و رسوخ کیسے رہ سکتا ہے؟ پھر یہ کہ ملا برادر سمیت ہم نے دیگر چیدہ چیدہ افغان رہنما ان کے حوالے کر دیئے۔ لہٰذا جو تھوڑا بہت اثر و رسوخ تھا، وہ بھی جاتا رہا‘‘۔
آصف ہارون کا مزید کہنا تھا ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بار پھر ہمارے پاس بارگیننگ کا موقع آ رہا ہے۔ ہم اس صورت حال کو کیش کرا سکتے ہیں۔ امریکہ ہمیشہ دو ایشوز پر پاکستان کے ساتھ اٹیچ رہا۔ ایک کمیونزم اور دوسرا افغانستان۔ کمیونزم کا خاتمہ تو ہو گیا۔ افغانستان کا معاملہ باقی ہے۔ پہلے روس پاکستان کے خلاف تھا، لیکن اب روس اور امریکہ کا پیچا لگا ہوا ہے اور روس ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔ ایران کی بھی یہی خواہش ہے تو پھر ہم کیوں ڈر رہے ہیں؟ کارڈ کھیلنے پڑتے ہیں۔ امریکی اس وقت اپنے مقصد کے لئے ہماری طرف مسکراہٹ بھیج رہے ہیں اور حکومت اسی پر خوشی سے نہال ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ٹرمپ نے جب جنوری 2017ء میں اقتدار سنبھالا تو چھ سات ماہ تک پاکستان سے اس کا رویہ بڑا دوستانہ تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو تعریفی فون بھی کیا تھا۔ تاہم نئی افغان پالیسی ڈیکلیئر کرتے ہی ٹرمپ نے اچانک آنکھیں پھر لیں۔ پاکستان سے رویہ تبدیل ہوا اور طالبان کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کی نئی حکمت عملی اپنائی گئی۔ جس کے تحت پانچ ماہ تک افغانستان میں بدترین بمباری کر کے سینکڑوں عام لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ کیمیکل ہتھیار بھی استعمال کئے۔ لیکن جب دیکھا کہ رزلٹ زیرو ہے اور طالبان پہلے سے بھی زیادہ قوت سے مقابلہ کر رہے ہیں تو ٹرمپ نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ براہ راست مذاکرات سے متعلق طالبان کا مطالبہ تسیلم کر کے دوہا میں بات چیت شروع کر دی گئی۔ ساتھ ہی پاکستان سے بھی ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ اچانک نرم ہو گیا لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل صورت حال بدلنے پر امریکہ دوبارہ رویہ تبدیل نہیں کرے گا ؟ ہمیں یہ سارا ٹریک ریکارڈ سامنے رکھتے ہوئے اپنے پتے کھیلنا ہوں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭
Next Post