روپے کی بے قدری پر افغان تاجر بھی پریشان

0

پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ اور روپے کی بے قدری سے افغان تاجروں کو اربوں کا نقصان ہوچکا ہے اور انہوں نے حکومت پاکستان سے ڈالر کو ’’کیپ‘‘ لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پاکستانی روپوں میں کاروبار نہ کرنے کی تجویز پر عمل درآمد سے پاکستان کو بھی اربوں روپے خسارے کا خدشہ ہے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ایک طرف پاکستان میں مہنگائی و مشکلات کا سامنا ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، تو دوسری جانب پہلی بار یہ انکشاف ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار، پکتیکا، کنڑ، نورستان، لغمان، غزنی، پکتیا اور خوست کے ہزاروں تاجروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ یہ صوبے افغانستان کی نصف آبادی پر مشتمل ہیں۔اس حوالے سے خوست اور ننگرہار سے تعلق رکھنے والے دو تاجروں حاجی محمد رحمان اور حاجی رحمان اللہ پکتیا وال نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ڈالر کو ایک سطح پر نہ رکھنے کی وجہ سے افغان تاجروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ افغانستان کے ان صوبوں کی اکثر تجارت پاکستانی روپے میں ہوتی ہے اور پاکستانی روپے میں سودا لینے کے بعد افغانی (افغانستان کی کرنسی) میں فروخت کرنے سے مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ 162 پاکستانی روپے افغانستان کی 100 افغانی کے برابر ہے۔ اس لئے اگر وہ 162 روپے کی چیز 100 افغانی میں فروخت نہ کریں تو انہیں نقصان ہو گا۔ لیکن اس سے کم میں انہیں خریدار نہیں ملے گا۔ اس لئے حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک سے التجا ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی ایک قابل قبول قیمت مقرر کر دی جائے، تاکہ افغان تجارتی مسائل سے محفوظ رہیں۔ ان تاجروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ڈالر سستا ہے، جبکہ پاکستان میں مہنگا۔ اس لئے انہیں یہاں افغانی کرنسی میں ڈالر لے کر پاکستان میں اسے روپے میں تبدیل کرنے سے بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ ان تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے یکم جنوری تک ڈالر کو ایک سطح پر منجمد نہ کیا اور اس کو کرنسی ڈیلروں کے رحم و کرم پر چھو ڑ دیا تو افغان تاجر یا تو پاکستان کے ساتھ تجارت بند کر دیں گے یا چاہ بہار کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ شروع کر دیں گے، کیونکہ اس طرح اربوں کا نقصان وہ برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کو پاکستان اور افغانستان کی تجارت کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی اربوں ڈالر کی تجارت ہے۔ پاکستان صرف اس تجارت کو تسلیم کرتا ہے جو بینکوں کے ذریعے ڈالر میں ہوتی ہے، لیکن پشاور، راولپنڈی اور کراچی سے افغان تاجر کروڑوں ڈالر کی تجارت پاکستانی روپے میں کرتے ہیں، جبکہ پاکستان اور افغانستان میں پاکستانی اور افغانی کرنسی بھی چلتی ہے، اس لئے کہ پاکستان میں کام کرنے والے افغان باشندے جب اپنے ملک آتے ہیں تو انہیں پاکستان میں ہی افغانی کرنسی مل جاتی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں کام کرنے والے پاکستانی تاجروں، دکانداروں، انجینئرز اور مزدوروں کو گھر واپسی پر آسانی سے پاکستانی روپے مل سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تاجروں کے درمیان براہ راست تجارت جو بینکوں کے ذریعے نہیں ہے وہ تقریباً چار ارب ڈالر کے قریب ہے۔ رحمان اللہ نے مزید بتایا کہ پاکستان کی جانب سے غلط اقتصادی پالیسیوں اور پابندی کے باعث اس سال مشرقی افغانستان سے چلغوزے کو چین ایکسپورٹ کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ چلغوزہ، اخروٹ اور دیگر خشک میوہ جات پاکستان میں فروخت کئے جاتے اور وہاں سے افغان اور پاکستانی تاجر مل کر اسے بیرون ملک فروخت کرتے تھے۔ افغانی چلغوزے اور اخروٹ کو پاکستانی قرار دے کر پوری دنیا میں فروخت کیا جاتا تھا لیکن عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان تاجروں میں ان کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے بے یقینی بڑھ گئی ہے۔ چوک یادگار پشاورمیں افغان تاجروں کو تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر بلا وجہ پابندیوں کی وجہ سے افغان تاجروں نے خود نئی منڈی تلاش کرلی ہے، جس سے کروڑوں ڈالر زر مبادلہ ایران منتقل ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سال افغان چلوزے کا چین میں دام کافی اچھا رہا ہے اور لاکھوں ڈالر کا چلغوزہ افغانستان نے چین برآمد کیا، جو منافع میں پاکستان سے تجارت کے اعتبار سے 35 فیصد زیادہ ہے۔ کنڑ چیمبر آف کامرس کے صدر احمد خان کے مطابق کنڑ کی کُل تجارت کے پچاس فیصد کی لین دین پاکستانی روپے میں ہوتی ہے اور افغانستان اور پاکستان کی تجارت میں جو ہمیں فائدہ تھا اب وہ ایک خواب نظر آرہا ہے اور اب پاکستانی کرنسی میں تجارت کرنا خسارہ ہے اس لئے کہ پاکستان میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم نہیں رہتا جس سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے۔ اس لئے ہم اب صرف ڈالر اور افغانی کرنسی میں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن اس سے ہمیں وہ فائدہ نہیں ہورہا ہے جو پاکستانی کرنسی میں کاروبار سے ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں کمی ہورہی ہے اور اس کمی کے ذمہ دار پاکستانی اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے۔ پاکستانی اسٹیٹ بینک اگر روپے کو مزید بھی گرانا چاہتا ہے تو اسے ایک متعین قیمت پر اسے منجمد کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی کرنسی میں تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔ دوسری جانب افغانستان کے مشرقی صوبوں میں اب تاجکستان اور قازقستان سے آٹا اور لوبیا، بھارت سے چاول، ملائیشیاء اور دبئی سے گھی بڑے پیمانے پر سپلائی ہورہا ہے۔ اسی طرح بھارت سے کپڑے بنگلہ دیش، ایران اور ترکی سے آر ہے ہیں، جبکہ ادویات چاہ بہار کے راستے مشرقی افغانستان پہنچ رہی ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More