محمد زبیر خان
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ممکنہ گرفتاری پر کوئی بڑی احتجاجی تحریک نہیں چلائے گئی۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک، مہنگائی اور دیگر ایشوز کو سامنے رکھ کر چلائی جائے گی، جس کے لئے نون لیگ اور جے یو آئی (ف) کے درمیان اتفاق ہے کہ بھرپور تحریک چلانے کا صحیح وقت سال 2019ء کا بجٹ پیش ہونے کے بعد کا ہوگا۔
لیگی ذرائع نے بتایا ہے کہ نواز لیگ کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ میاں نواز شریف کی متوقع گرفتاری کے حوالے سے کوئی بڑا احتجاج نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ مختلف شہروںمیں ہلکا پھلکا احتجاج کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں جیل بھیجا جاتا ہے تو اس سے ان کو مزید مقبولیت ملے گی، جو نواز لیگ کے حق میں جائے گی اور اس کو وہ مستقبل میں اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں کوئی بڑا احتجاج زیادہ فائدہ مند نہیں ہوگا، بھلے یہ احتجاج ان کی گرفتاری کے حوالے ہی سے کیوں نہ ہو۔ اس لئے نواز لیگ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ احتجاج مناسب وقت پر کیا جانا چاہیے اور بہتر یہ ہے کہ گرفتاریوں وغیرہ کے بجائے عوامی ایشوز کو سامنے رکھ کر احتجاج کیا جائے۔ ذرائع کے بقول نواز لیگ کے حلقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ احتجاج کا موثر وقت سال 2019ء میں بجٹ کے بعد کا ہوگا۔ یہ وہ موقع ہوگا جب حکومت کو مناسب وقت بھی مل چکا ہوگا اور موجودہ معاشی حالات کی وجہ سے عوام بھی تنگ ہوں گے۔ اس وقت تک آئی ایم ایف سے بھی حکومت کی بات چیت مکمل ہونے کے بعد بیل آئوٹ پیکج مل چکا ہوگا، جس کے بعد حکومت کو ہر صورت میں ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اور یہی وہ موقع ہوگا جب عوام بھی بھرپور انداز سے باہر نکلنے کو تیار ہوں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ نواز لیگ کی قیادت اس وقت جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے اور اس بات پر متفق ہے کہ حکومت کے خلاف ایسی تحریک ہونی چاہیے، جو نتیجہ خیز ہو۔ ذرائع کے مطابق نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت، اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہے اور امید ہے کہ 2019ء کے بجٹ کے بعد مشترکہ اپوزیشن کا قیام عمل میں آجائے اور حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے۔
مسلم لیگ (ن) خیبر پختون کے ممبر صوبائی اسمبلی اورنگ زیب نلوٹھہ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کو جیل بھیجا گیا تو اس کا شدید ری ایکشن ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام تو ابھی سے سڑکوں پر آنے کو تیار ہیں۔ عوام تنگ آچکے ہیں اور نواز لیگ کی قیادت سے کہہ رہے ہیں کہ اب سڑکوں پر نکلا جائے۔ مگر میاں نواز شریف اس وقت ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچ رہے ہیں اور اس حکومت کو کچھ وقت دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دعووں اور اس نے عوام سے جو وعدے کئے ہیں، اس پر عمل درآمد کرسکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف ذہنی طور پر ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہوکر برطانیہ سے آئے تھے اور وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ وہ نہ تو جیل جانے سے خوف زدہ ہیں اور نہ ہی ان کو خوف زدہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک سوال پر اورنگ زیب نلوٹھہ کا کہنا تھا کہ موجود وقت میں مسلم لیگ (ن) اپنی تنظیم کی طرف بھرپور توجہ دے رہی ہے اور اس حوالے سے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ جبکہ 24 دسمبر کو اگر میاں نواز شریف کو جیل بھیجا گیا تو اس کا ری ایکشن پورے ملک میں نظر آئے گا۔ اس حوالے سے لیگی قیادت کا ایک اجلاس جلد منعقد ہو رہا ہے جس میں اہم فیصلے بھی کئے جائیں گے۔ میاں نواز شریف کے جیل جانے سے مسلم لیگ (ن) میں قیادت کا کوئی بحران نہیں ہوگا۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور نواز لیگی رہنما راجہ ظفر الحق نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 24 دسمبر کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر کچھ بھی نہیں کہنا چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز لیگ ایک منظم جاعت ہے، جس میں قیاد ت کا کوئی فقدان نہیں۔ پہلے بھی انتہائی موثر احتجاج کیا گیا اور اگر اب بھی ضرورت ہوئی تو دیکھا جائے گا۔