کراچی(اسٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار،جسٹس فیصل عرب و جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے شہر کےپارکوں ، فٹ پاتھوں ،رفاہی پلاٹوں و نالوں پر قائم تجاوزات کے خلاف آپریشن بلا تعطل جاری رکھنے کا حکم دیدیا ہے ۔وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن روکنے کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔کے ایم سی کو تمام رفاعی پلاٹوں پر زیر تعمیر گھروں کو 30 روزقبل جبکہ ایس بی سی اےاور کے ڈی اے باقی غیر قانونی تجاوزارت کے لیے 45 روزقبل ہی نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت و میئر کراچی کاپیش کردہ مشترکہ متبادل پلان منظور کر لیا ہے۔پلان کے مطابق تجاوزات کے خاتمے کیلئےبذریعہ اشتہار نوٹس جاری ہوں گے۔ میئر کراچی وسیم اختر کو پارکوں،رفاہی پلاٹوں اور نالوں پر قائم غیر قانونی رہائشی عمارتوں و دکانوں کو مسمار کرنے کے لیے لوگوں کو 6 ہفتوں کا نوٹس جاری کرنے اور کسی کے ساتھ رعایت نہ برتنے کی ہدایت کی ہے۔سندھ ہائی کورٹ کو رفاہی پلاٹوں پر تجاوزات کے حوالے سے حکم امتناع کے کیسز15 یوم میں نمٹانے کا حکم دیا ہے ۔لائٹ ہاؤس لنڈا بازار کی دکانوں کے انہدام پرتاجر الائنس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ جو ناجائز بیٹھا تھا،اس کی کوئی حمایت نہیں کی جائے گی ۔غیر قانونی تعمیرات و قبضہ کرنے والے ناسور ہیں۔کوئی کے پی کے اور کوئی بلوچستان سے آکر مافیا بنالیتا ہے۔کیا کوئی واشنگٹن اور لندن میں بھی ایسی دکانیں بنا سکتا ہے۔ بدھ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین،میئر کراچی وسیم اختر و دیگر حکام پیش ہوئے۔عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مشترکہ پلان جمع کرایا جس کے مطابق عدالتی احکامات پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ مئیر کراچی شہر میں پارکس ،فٹ پاتھوں،رفاہی پلاٹوں،نالوں پر قائم تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھیں گے۔میئر کراچی غیر قانونی تجاوزات کرنے والوں کو اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے انہدام کا نوٹس دیں گے ، تاکہ تمام مقامات کو اصل حالت میں لایا جائے۔پارکس ،رفاہی پلاٹوں و نالوں پر قائم رہائشی عمارتوں و دکانیں مسمار کرنے کیلئے 6 ہفتے دیئے جائیں گے ، تاکہ اس عرصے میں لوگ متبادل رہائش و کاروبار کا بندوبست کرسکیں۔مشترکہ پلان کے تحت حکومت سندھ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرین کو لائنز ایریا ری ڈویلپمنٹ پروجیکٹ میں متبادل جگہ دینے کیلئے کام کر رہی ہے۔ میئر کراچی صدر کار پارکنگ پلازہ سمیت بلدیہ عظمی کی اراضی پر تجاوزات قائم کرنے والوں کو جگہ دیں گے۔عدالت نے مشترکہ پلان قبول کرتے ہوئے اسے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ یہ وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرین کی بحالی مدد کیلئے 20کروڑ جاری کرے۔تجاوزات کے خاتمہ کی صورتحال کی ذمہ دار بلدیہ عظمی ہے ۔کے ایم سی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے گھر بھی مسمار کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ عدالت کسی کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ مگر آپریشن قانون کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ 6 ہفتوں کا پیشگی نوٹس صرف رفاعی پلاٹوں پارکوں پر قائم رہائشی عمارتوں سے متعلق ہے۔میئر کراچی نے کہا کہ کے ایم سی کو ذمہ دار قرار دینے کا موقف درست نہیں، بلدیہ عظمی ہی نہیں اور لوگ بھی ذمہ دار ہیں۔سندھ حکومت چاہتی ہے کہ وفاق مدد کرے اور گر وفاق نے گرانٹ نہ دی تو کیا ہو گا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ سندھ حکومت نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق کیوں گرانٹ جاری کرے گا۔یہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کے ایم سی کو20 کروڑ دے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ بلڈرز مافیا کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن جاری رہنا چاہئے۔میئر کراچی کا کہنا تھا کہ رفاعی پلاٹوں پر قائم تجاوزات کے حوالے سے عدالتوں نے حکم امتناعی دے رکھے ہیں۔اس پر سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کو 15 دنوں میں تمام کیسز ترجیحی بنیاد پر نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوسکے تو تمام کیسز سپریم کورٹ میں بھیجے جائیں۔میئر کراچی وسیم اختر کے مطابق ایمپریس مارکیٹ سے متصل عمر فاروقی مارکیٹ مکمل گرائی گئی ۔ 603 دکانداروں ایمپریس کے سامنے والی مارکیٹ منتقل کئے گئے ۔باقی دکانداروں کو گارڈن میں جگہ دی جا رہی ہے۔ہر دکاندار کو 4ضرب 4 فٹ کے حساب سے جگہ دی گئی اور قانون کے مطابق ان سے 11 ماہ کا کرایہ داری معاہدہ کرلیا گیا۔ کے ایم سی کرائے ناموں پر اعتراض اٹھانے والے دکانداروں کو 30 دن پہلے نوٹس دیا گیا تھا۔ اب تک 484 دکانداروں کی تفصیلات مل گئی ہیں جنہیں متبادل جگہ دی جائے گی۔صدر و ایمپریس مارکیٹ کو مکمل کلیئر کردیا گیا۔ صدر کے اطراف میں 10 بڑے مقامات پر فٹ پاتھوں ،گھروں اور ہوٹلوں کی تجاوزات توڑی گئیں۔ سندھ حکومت کی20کروڑکی گرانٹ صفائی ستھرائی اور ملبہ اٹھانے کیلئے ہوگی۔کے ایم سی ختم کی گئی دکانوں کے کرائے نامے،معاہدے کے واجبات ادا کرنے کے پابند ہے۔ابتک 7معاملات سامنے آئے ہیں جن میں کے ایم سی نے واجبات ادا کرنے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ 30 دن میں رقم ادا کرنے کی پابند ہے۔متعلقہ دکانداروں سے 6 ماہ کا پیشگی کرایہ لیا گیا تھا جو واپس ادا کیا جائے گا۔ میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ متاثرین کو پارکنگ پلازہ گراؤنڈ کے و میزنائن میں 240 دکانیں دی جائیں گی اور پارکنگ پلازہ کے سامنے پلاٹ پر 400 دکانیں بنائی جائیں گی۔ بولٹن مارکیٹ پر ریونیو کے پلاٹ پر 1200 دکانیں بنیں گی۔ کھاردار پولیس اسٹیشن کے پیچھے بندر کوارٹر میں 65 دکانیں تعمیر کرکے دینے کی تجویز ہے۔مجموعی طور پر 2105 دکانیں متاثرین کو دی جائیں گی۔ وزیر اعلی سندھ کو ان پلاٹوں کو بحالی کے لیے کے ایم سے سی کو دینے کی سمری بھیج دی گئی ہے۔